Aye Mard e Mujahid Jaag Zara
اے مرد مجاہد جاگ زرا

چند روز پہلے ایک بے حد معروف کالم نگار، جید صحافی، سنئیر اینکر پرسن کے کالم کو پڑھنے کا موقع ملا۔۔ بہت اچھی اچھی باتیں لکھتے لکھتے نا جانے انھیں کیا ہوا کہ ایک عجیب وغریب اعتراض اٹھا دیا۔۔ یہ اعتراض ہمیشہ کی طرح عام عوام پر تھا کیوں کہ اب ان کا شمار اشرافیہ میں ہوتا ہے۔
انھوں نے فرمایا کہ اے مرد مجاہد جاگ زرا اب وقت شہادت ہے آیا، اس قسم کے ترانے سنا کر پوری قوم کو مجاہد بنا دیا گیا ہے۔۔ اب نیا ترانہ بنائیں کہ اے مرد مجاہد جاگ زرا اب وقت مشقت ہے آیا۔۔ میں نے بارہا ان جملوں کو پڑھا اور سوچا کہ یہ ان کے ہی الفاظ ہیں؟
پھر سوچا کہ تمام اشرافیہ کی طرح یہ بھی عام عوام کو ہنٹر لے کر سدھارنے کا شوق پورا کرنا چاہ رہے ہیں۔۔ تو پھر ضرور یہ شوق پورا کیجئیے۔۔ ہم عام عوام تو سب کے ارمان پورے کرنے ہی اس دنیا میں آئے ہیں۔
قومی ترانہ اور قومی نغمے وطن سے محبت کا اظہار ہیں۔ ہم نے اسکول فنکشنز میں قومی نغموں کے مقابلے ہوتے دیکھے۔ بلکہ کالج، یونیورسٹیز میں بھی طلبہ ان مقابلوں میں حصہ لیتے تھے اور ہیں۔
ایک وقت آیا کہ مختلف پرائیویٹ اسکول، کالجز میں فنکشنز پر انڈین گانے اور ان پر ڈانس کیا گیا۔ یہ ویڈیوز جب وائرل ہوئیں۔ تو سنجیدہ طبقے نے بے حر برا منایا اور یہ اعتراض بنتا بھی ہے۔ کیوں کہ تعلیمی اداروں کی حد تک یہ عمل بالکل مناسب نہیں تھا۔
اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھیں، آپ کو کوئی نا کوئی قومی نغمہ ضرور یاد آئے گا۔ تو کیا آپ نے تعلیم حاصل نہیں کی؟ روزگار حاصل کرنے کی جدو جہد نہیں کی؟ اپنے خاندان کے لیے مشقت نہیں اٹھائی؟ اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک سے محبت نہیں کی؟
ہماری نئی نسل پہلے ہی بے قابو گھوڑا ہے۔۔ جو خود پر کسی کو سواری نہیں کرنے دیتے۔ چاہے اس سواری میں پیدا اور پالنے والے والدین ہی کیوں نا شامل ہوں؟
اس نئی نسل کو ایک کھلاڑی نے وہ شعور دیا ہے کہ وہ ملک، حکمران اور پاک فوج پر تنقید کرتے وقت لحاظ نہیں کرتے۔۔ اگر لحاظ کرتے۔۔ تو نو مئی کا سانحہ کبھی نا ہوتا۔۔
اس نئی نسل کے دل میں وطن اور محافظوں کی محبت ڈالنے کے لیے ہمارے جیسے متوسط طبقے کے والدین انھیں پاکستان کی کہانیاں سناتے ہیں۔ جنھیں موسیقی کا شوق ہے۔ انھیں قومی نغمے گانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ تا کہ بچوں کے شوق بھی پورے ہو جائیں اور ہماری طرح انھیں قومی نغمے یاد رہیں۔ اپنے وطن سے محبت ہو۔ کبھی اس کے خلاف کوئی عمل کرتے ہوئے ہاتھ رک جائیں اور سوچ میں پڑ جائیں کہ یہ غلط عمل ہے۔ مجھے اس سے دور رہنا ہے۔
اور اشرافیہ اس سے بھی گبھرانے لگے ہیں؟ تعجب ہے۔۔
ہمیں مشقت کا سبق دینے والے بھول گئے کہ پاکستانی قوم مشقت کرکے ہی اپنے خاندانوں کو پال رہی ہے۔ گیس، بجلی کے بل خود دیتی ہے، پانی بھی خرید کر پیتی ہے۔ ہم سیاستدانوں کی اولادوں کی طرح منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے۔ نا ہی ہماری مرتی ماں کی خواہش بیٹی کو وزیراعظم بنانا تھی اور نا ہی ہمارا بوڑھا باپ مرنے سے پہلے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کی آرزو رکھتا ہے۔
ناہی ہم نے اپنے بیٹے اور بیٹیاں دوسرے ممالک میں سیٹ کرکے، قوم کے بیٹوں کو پاکستان میں ہی رہنے کا درس دیا ہے۔
ہمیں مشقت کا درس دینے والے یہ کیوں بھول گئے کہ پاکستان کا ہر فرد مشقت ہی کر رہا ہے۔ بس اشرافیہ اور عوام کی مشقت میں واضح فرق ہے۔ جو سب جانتے ہیں۔
آج آپ قومی نغموں پر اعتراض کر رہے ہیں۔ کل تئیس مارچ، چودہ اگست، چھ ستمبر پر بھی اعتراض کر دیں۔ پاک فوج کی پریڈ پر بھی اعتراض ٹھوک دیں۔ واہگہ باڈر کی پرچم اتارنے کی تقریب بھی بند کروا دیں۔
اور پھر چند دھائیوں کے بعد نتیجہ یہ نکلے کہ میرے منہ میں خاک۔ خدانخواستہ ملک پر کوئی مشکل وقت آئے تو انسانوں کی بجائے ٹھنڈی لاشوں جیسے انسان پڑے ہوں۔ جنھیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں حیران ہوں کہ قومی نغموں پر اعتراض کرنے والے نے سیاسی جماعتوں کے نغموں پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟
جہاں، کبھی نیا پاکستان بنایا جاتا ہے۔ تو کبھی دشمنوں پر تیر چلائے جاتے ہیں۔ یا پھر ووٹ کی عزت مانگتے مانگتے، اپنے لیڈر سے ملک کو سنبھالنے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یا کبھی کسی کے آنے کا نقارہ بجایا جاتا ہے۔
مذہبی اور سیاسی نغموں پر اعتراض کیوں نہیں کیا جاتا؟
اپنی جماعت کے جھنڈے کو قومی پرچم پر ترجیح دینے والوں پر زیادہ اعتراض بنتا ہے۔ مگر کوئی کالم نگار یا صحافی کچھ نہیں کہتا۔
سچ تو یہ ہے کہ سیاستدان ہوں یا صحافی، صاحب اقتدار ہوں یا اشرافیہ انھیں گری پڑی قوم اور کمزور فوج سوٹ کرتی ہے اور جب ان کے مفادات پورے نہیں ہوتے تو یہ ہر بات پر اعتراض کرنے لگتے ہیں۔
جب ہر فعل ان کی منشا کے مطابق ہو تو مسکراہٹیں رکتی نہیں۔
اور دوسری صورت میں چہرے پر سوگ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
محترم صحافی سے گزارش ہے کہ پاکستان کی عوام پر تنقید کرنے سے پہلے اس اشرافیہ پر تنقید کریں۔ جن کے حلقہ احباب میں آتے ہی عام عوام سب کو بری لگنے لگتی ہے۔
ڈاکٹر، انجئنیر بنانے کے لیے پہلے اپنے گورنمنٹ کالجز پر تو دھیان دیں جہاں تنخواہیں وصول کی جاتی ہیں مگر تعلیم دینے کا رواج ہی نہیں۔
خدارا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں قلم تھما کر آپ کے الفاظ میں دوسروں کے لیے کشش رکھ دی ہے تو اس کی قدر کریں۔
سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کو استعمال کریں۔

