Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Aur Phir Hum Jadeed Ho Gaye

Aur Phir Hum Jadeed Ho Gaye

اور پھر ہم جدید ہو گئے

چند دھائیاں پیچھے چلے جائیں۔ پاکستانی معاشرے کی خوبیوں پر نظر دوڑائیں۔ ہمارے گھروں سے لے کر باہر تک چھوٹے بڑے کی تمیز اور احترام تھا۔ خواتین کا لحاظ تھا۔ مروت تھی، دکھ سکھ کا احساس تھا۔ خوشامد اور چاپلوسی کو برا سمجھا جاتا تھا۔ ہمسایوں کے حقوق تھے۔ جھوٹ بولنے والے کو نفرت سے دیکھا جاتا تھا۔ کسی صاحب حیثیت شخص کی مال ودولت کو حریص نظروں سے دیکھنے والے کو گھٹیا سمجھا جاتا تھا۔ قناعت پسندی کا سبق پڑھایا جاتا تھا۔ بچے والدین کے سامنے بحث تو دور کی بات نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ تایا، چچا اور ماموں باپ کی طرح محبت کرتے تھے۔ اسی طرح تائی چچی، خالہ، پھپھو اور سگی ماں کی محبت میں فرق مشکل تھا۔

دین کے نام پر، مسلک پر بحث ومباحثہ عام عوام سے دور تھا اور پھر ہم جدید ہو گئے۔ ترقی یافتہ معاشرہ بن گئے۔۔ سیاسی جماعتوں نے سبق پڑھایا کہ ہر وہ عورت قابل عزت و احترام ہے جس کا تعلق ہماری جماعت سے ہے۔ باقی سب بد کردار ہیں۔۔ ہماری لیڈر شپ نیک اور دودھ کی دھلی ہے۔۔ باقی سب چور ہیں۔

مذہبی جماعتوں نے بتایا کہ والدین بعد میں پہلے ہمارا حکم مانا جائے۔۔ ہمارا مسلک درست باقی سب غلط۔۔ کئی جماعتوں نے دوسرے مسالک کے لوگوں کو کافر اور واجب القتل قرار دے دیا۔۔

صحافت کا پیشہ جسے حق و سچ کا علمبردار سمجھا جاتا تھا۔۔ بکاو مال بن گیا۔۔ جو آئے اپنی اپنی بولی لگائے اور قیمت حاصل کرنے کے بعد رٹو توتے کی طرح دوسروں کا بیانیہ عام عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنا شروع کر دے۔۔

تاجر حضرات نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دئیے۔ مہنگائ، گراں فروشی، خراب مال درست بتا کر بیچنا شروع کر دیا۔۔

رشتوں میں برکت ختم ہوگئی۔۔ خود غرضی پیدا ہوگئی۔۔ شادیاں یعنی نکاح اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر نہیں بلکہ نمودونمائش کے لیے ہونے لگے۔۔

استاد جن کے پیشے کو پیغمبروں کا پیشہ کہا گیا۔۔ وہ نوکریاں کرنے لگے۔۔

پہلے ایک فوجی شہید ہوتا تھا تو ساری قوم سوگوار ہو جاتی تھی۔۔ اب بیس سے پندرہ جوان شہید ہو جائیں تو صرف ایک خبر بنتی ہے۔ روایتی مذمتی بیان چلتے ہیں۔

پہلے ہمارے بڑے کہتے تھے نا حق قتل ہو تو شدید آندھی چلتی ہے۔۔ اب تو تھوک کے حساب سے قتل ہوتے ہیں اور آندھیوں نے چلنا چھوڑ دیا۔

کسی خاتون سے زیادتی پر عام عوام دہل جاتی تھی۔۔ اب خواتین تو دور کی بات بچے بچیاں بھی محفوظ نہیں۔ مگر ہم عوام خبر پڑھتے ہیں، افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔۔

آخر صرف دو دھائیوں سے جدیدیت اور ترقی ہمارے اخلاق پر حاوی کیسے ہوگئی؟

ان سب معاملات میں نوے فیصد ہاتھ اس سیاسی جماعت کا ہے۔۔ جسے سیاسی جماعت کہنے کو دل ہی نہیں کرتا۔۔ اس جماعت کے بانی کو کھیلنے کا شوق تھا اور آخری گیند تک کھیلنے کا دعویٰ بھی ببانگ دہل کرتا تھا۔۔ پھر اس نے پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان اور اس کی عوام کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ بد اخلاقی، بد تہذیبی، بد زبانی۔ معشیت کی تباہی، غیر اخلاقی جرائم کی ایک طویل فہرست۔۔ جسے گنوانے بیٹھیں تو الفاظ کم پڑ جائیں۔۔ مگر سب سے بڑا ظلم عام عوام پر یہ ہوا کی دوسری سیاسی اور کچھ مذہبی جماعتوں نے بھی یہ راستہ اختیار کر لیا۔۔

اور اب نتائج سب کے سامنے ہیں۔۔ خوف کے بت توڑ کر جو بہادری نئی نسل کو سکھائی گئی۔۔ اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔۔ کسی کی عزت نہیں رہی۔۔

قانون کے ادارے صرف عام عوام کے جرائم پر سزا دینے کے لیے ہیں۔ بعض اوقات تو لگتا ہے کہ یہ عدالتیں ہی بند ہو جائیں گی۔۔ ہو سکتا ہے مندرجہ بالا تمام باتیں دو دہائیوں قبل بھی معاشرے میں موجود ہوں۔۔ مگر نظر نا آتی ہوں اور اب میڈیا، سوشل میڈیا نے کسی بات کو پردے میں نہیں رہنے دیا ہے۔۔ یہ آزادی بھلی تو ہے مگر بہت تکلیف دہ بھی ہے۔۔

خدارا حکمران قوم کے اخلاق سنوارنے پر بھی توجہ فرمائیں۔۔ بلکہ پہلے اپنے کارکنان اور سوشل میڈیا سیل پیڈ لوگوں پر توجہ دیں۔۔ مجرموں کو عدالتی نظام کے تحت سزائیں دیں۔ قانون کی بالادستی یقینی بنائیں۔

سب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو برابری کے حقوق دیں۔ یہ نہی کہ صاحب اقتدار سیاسی جماعت جو چاہے کرے اور اپوزیشن پر پابندی اور قدغن۔ پر تشدد احتجاج اور تقاریر پر پابندی بھی سب جماعتوں کے لیے ہو۔۔ نا کہ کسی ایک جماعت کے لیے۔۔ جب تک برابری اور قانون سب کے لیے ایک نہیں ہوگا۔۔

پاکستانی معاشرہ جس کی اقدار کی مثالیں دی جاتی تھیں رہنے کے قابل نہیں بنے گا۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz