Asal Sach To Ye Hain
اصل سچ تو یہ ہیں

پچھلے چند دنوں سے پاکستان میں ہر طرف بشری بی بی کی "کرامات اور روحانیت" کے چرچے ہیں۔ یہ کوئی نئی خبر نہیں ہم عام عوام عمران خان کی بشری بی بی سے شادی کے دن سے یہ باتیں سن رہے ہیں۔ بلکہ ایک خاتون ببانگ دہل نوزائیدہ زندہ بچوں کو اقتدار کی خاطر بلی دینے کے قصے سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے سنا رہی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک عمران خان یا بشری بی بی کی طرف سے ان باتوں کی تردید نہیں آئی اور ناہی اس خاتون پر ہتک عزت کا کوئی دعویٰ سامنے آیا۔ ریاست نے بھی اس خاتون کی باتوں پر کوئی توجہ نا دی۔ اسی لیے سچ اور جھوٹ کی تمیز بھی واضح نہیں ہے۔
مگر اب پھر سے دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والی اس کہانی نے اچانک اتنی شہرت حاصل کر لی۔ کہ ہر نیوز چینل پر پہلی خبر یہی تھی اور ہم عام عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اس کہانی میں نئی بات کون سی ہے؟ یا اس راگ کو دوبارہ کیوں سنایا جا رہا ہے؟
پاکستان کی سیاست میں نئی اور انہونی بات کوئی نہیں ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اصل سچ "نظر "آنے والے سچ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
اصل سچ تو یہ ہیں کہ اس ملک کا موجود صدر اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ جیل میں کاٹ چکا ہے اور اس پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا اور آج وہ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے پر مضبوطی سے بیٹھا ہوا ہے۔
اس ملک کا وزیراعظم متعدد بار کرپشن کے الزامات پر نیب کی جیل کاٹ چکا ہے اور آج وہ پوری دنیا میں پاکستان کا نام خارجہ پالیسی کے تحت روشن کر رہا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ وہ خاتون بنی ہیں۔ جنھوں نے پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا اور پہلی مرتبہ میں ہی سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ نیب کی جیل کاٹ کر، سب مقدموں سے با عزت بری ہو چکی ہیں۔
پاکستان کے ایک دوسرے صوبے کا وزیر اعلیٰ وہ ہے جس نے نو مئی کے سانحے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آج مزے سے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر جھولے لے رہا ہے۔ پاکستان کے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ دوسری دہائی سے کرسی اقتدار پر ایسا چپک کر بیٹھا ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وجہ شاید صرف" وفاداری" ہے۔
عام عوام نے تین مرتبہ کے وزیر اعظم کو ہر بار جیل جاتے اور واپس آکر اقتدار سنبھالتے بھی دیکھا ہے۔ وہ لیڈر جو ہر بات پر تعزیت یا مذمتی بیان جاری کرتا ہے۔ آج تک ہمسائے دشمن کے حملے کی مذمت نا کر سکا۔ یہ بھی عام عوام نے ہی دیکھا ہے۔
ووٹ کو عزت دینے کی خاطر اسمبلیوں میں جمع ہونے والے ہمارے شاندار سیاسی رہنما جو اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے قوانین میں تبدیلی کے وقت اتفاق کا شاندار مظاہرہ کر رہے تھے۔۔ یہ بھی حالیہ دنوں میں عام عوام نے دیکھا ہے۔
والدین اپنے بچوں کے راستے کے کانٹے چن کر ان کے مستقبل کو کس طرح مضبوط بناتے ہیں، یہ عملی مظاہرہ بھی عام عوام نے نئی ترمیم میں دیکھا ہے۔
ماضی کھنگال لیں۔ ہر سیاست دان پیر و مرشد کے آستانے پر ماتھا ٹیکنے جاتا رہا ہے اور نعوذ باللہ من ذالک اسی پیر و مرشد کی وجہ سے شاید اقتدارِ بھی پاتا رہا ہے۔
عمران خان ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے مرشد سے نکاح ہی کر بیٹھے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی قسم کا شرک ناقابل معافی جرم ہے۔ لیکن یہ جرم ہوتا رہا ہےاور مستقبل میں بھی اس کے نا ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں، کیوں کہ شیطان کی مہلت قیامت تک کی ہے۔
جب تک حکمران کرسی اقتدار پر بیٹھا ہے تب تک اس کے شرک، گناہ اور کرپشن سب جائز ہوتی ہے۔ بس اقتدار سے" اتارنے" کی دیر ہے سب اصل سچ سامنے آ جاتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ عام عوام کو بیوقوف سمجھنے کی روایت نہیں بدلتی۔
عام عوام کو سب یاد رہتا ہے۔ اگرچے حکمران ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انھیں ضرورت زندگی کے گورکھ دھندے میں الجھا کر رکھیں۔ مگر دماغوں کو کون قید کر سکا ہے؟ سوچ پر پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے؟
عام عوام کو لگتا ہے کہ دی اکانومسٹ کی کہانی کو دوبارہ زندہ کرنے والے سے غلطی ہوگئی۔۔ کیوں کہ اب عام عوام ان پرانی کہانیوں سے اکتا چکی ہے۔ ان میں کوئی نیا پن محسوس نہیں ہوتا۔
اصل سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی عہدہ مستقل اور مضبوط نہیں۔ جب عہدے چھن جائیں تو جرائم کی ایک طویل فہرست سامنے آ جاتی ہے اور یہ کہانی ہر بار دہرائی جاتی ہے۔ بس کردار بدلتے رہتے ہیں۔
اور قوانین میں ترمیم کون سا مشکل کام ہے؟
ہر صاحب اقتدار جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔۔
ایک عام عوام کی زندگی ہی نہیں بدلتی باقی پاکستان میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔

