Asal Kamyabi
اصل کامیابی
میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر عمر کی ایوریج ساٹھ سے ستر سال ہے بہت کم لوگ ستر سے اسی تک پہنچتے ہیں۔ ورنہ اس دوران ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ موت زندگی سے زیادہ بڑی حقیقت ہے۔
قرآن کہتا ہے ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ جب ہمارے مالک و خالق نے اپنی سچی کتاب میں یہ کہ دیا تو اس بات کی سچائی میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔ پیغمبر، نبی، بادشاہ، غریب، بوڑھا، جوان، مرد، عورت جس کا بھی وقت ہو رہا ہوگا اس دنیا سے چلا جائے گا۔ اپنی اس عارضی پناہ گاہ کو چھوڑ دے گا۔ لیکن شیطان اس دنیا میں ہمیں یہ بات سوچنے ہی نہیں دیتا کہ ہم نے واپس بھی جانا ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ قیامت کے قریب ایک دور ایسا آئے گا کہ لوگوں کی عمریں ساٹھ سے ستر سال رہ جائیں گی اور ان کے گھر انتہائی مضبوط ہوں گے۔ تو صحابہ اکرامؓ نے تعجب سے پوچھا کہ اگر ان کی عمریں اتنی کم ہوں گی تو وہ اتنے مضبوط گھر کیوں بنائیں گے؟
مجھے لگتا ہے پاکستان کے صاحب اقتدار اور صاحب ثروت افراد یہ بات فراموش کر چکے ہیں کہ انہوں نے اس دنیا سے واپس بھی جانا ہے اور جانے کے بعد اپنے اعمال کا، اپنے مال کا حساب بھی دینا ہے۔ ذرا سوچیں آپ مر چکے ہیں۔ قبر میں آپ کا حساب شروع ہوگیا اور خدانخواستہ آپ کے حصے میں خسارے آ گئے تو آپ کا دل نہیں چاہے گا کہ میں جو روپیہ پیسہ بینکوں میں یا اپنی تجوریوں میں چھوڑ آیا ہوں کاش میں وہ خیرات کر پاتا۔ کاش کسی غریب کو دے کر اس سے دعا لے پاتا۔
لیکن نامہ اعمال بند ہو چکا ہوگا اور صرف حسرت ہی باقی رہ جائے گی۔
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب کچھ اپنی زندگی میں خیرات کر دیں اور اپنی موت کا انتظار شروع کر دیں اور اس دنیا کی جو حلال نعمتیں ہیں ان سے لطف اندوز نہ ہوں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ جب آپ عمر کے اس حصے میں پہنچ جائیں کہ لگے اپنے ربّ سے ملنے کا وقت قریب آ رہا ہے تو اپنے فیصلوں میں تاخیر نہ کریں۔ اپنی اولاد کو ان کا جائز حق اپنی زندگی میں دے دیں اور اپنی ضرورت سے زیادہ ہر چیز کو خیرات کر دیں۔ غریب و مساکین کو خود ڈھونڈیں اور اپنے ہاتھوں سے خیرات کریں۔
مال ایک وبال ہے اس وبال کو اس دنیا میں ہی اتار کر جائیں۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے جو بستر مرگ پر بھی چیزوں کی ہوس کا شکار ہوتے ہیں۔ بوڑھی خواتین اپنے ٹرنکوں میں جوڑوں کے ڈھیر چھپا کر بیٹھی ہوں گی۔ اپنے زیورات کو سینے سے لگا کر بیٹھی ہوں گی۔ زندگی میں کسی کو دینے کا حوصلہ نہیں ہوگا اور مرنے کے بعد بہو، بیٹیاں لوٹ سیل لگا کر بیٹھی ہوں گی اور مرد حضرات جن چیک بکس کو ساری زندگی چھپاتے رہینگے ان کے بیٹے بعد میں وہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ آپ بہادری سے یہ تسلیم کریں کہ میرا وقت قریب ہے اور مجھے اپنی اولاد کا جائز حق دینے کے بعد باقی سب کچھ خیرات کر دینا چاہیے۔ اور اپنی اگلی منزلوں کو آسان بنانا چاہئے۔ میرا پاکستان کے صاحب اقتدار اور صاحب ثروت افراد کو یہ مشورہ ہے کہ عقل سے کام لیں۔ اور اپنی اگلی زندگی کے لئے انویسٹمنٹ کریں۔ کیا فائدہ ایسے مال کا جس سے آپ جنت نہ خرید سکیں۔ اس سے بڑا گھاٹے کا سودا کوئی نہیں۔
یاد رکھئے عقلمند انسان کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ اپنے مال اور اعمال صالحہ کے ذریعے اپنے اگلے راستے کے کانٹے خود صاف کریں۔ کیوں کہ اصل کامیابی یہی ہے۔