Aik Baar Phir Ye Film Dekh Lain
ایک بار پھر یہ فلم دیکھ لیں
مجھے انگلش فلمیں بالکل پسند نہیں ہیں۔ آپ لوگ بالکل ٹھیک سمجھے۔ میرا انگلش پر عبور اتنا ہی ہے جتنا کسی اردو میڈیم اسکول سے پڑھنے والے طالب علم کا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مجھے انگریزی فلم اردو کی نسبت زیادہ توجہ سے دیکھنا پڑتی ہے۔ تو میں سوچتی ہوں اس سے بہتر ہے کہ میں کوئی اردو زبان کی لکھی کتاب پڑھ لوں۔ لیکن پھر بھی کچھ انگریزی فلمیں میں نے بڑے شوق سے دیکھیں۔ آپ اب بھی بالکل درست سمجھے، میں ٹائیٹینک کی بات کر رہی ہوں۔
جب پہلی مرتبہ دیکھی تو صرف رومینٹک سیڈ لو اسٹوری کو دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ سوچا کیا تھا ہیرو نا مرتا اور دونوں شادی کرکے ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ یہ فلم دیکھی تو ہیروئین خود غرض لگی۔ اپنی جان بچا لی اور بیچارے ہیرو کی لاش کو چھوڑ کر چلی گئی۔ پھر چند سال گزرے، حالات کی سخت دھوپ نے ذہن پر جمی ساری برف پگھلا دی۔ ہر شے کو دیکھنے کا زاویہ بدل گیا۔ اسی دوران دوبارہ ٹائیٹینک دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
یقین مانیئے پاکستان کے اشرافیہ پر غصہ کچھ کم ہوگیا۔ کیوں کہ احساس ہوا کہ اشرافیہ، صاحب اقتدار اور امراء تو دنیا میں ہر جگہ ایک ہی ذہنی حالت میں موجود ہوتے ہیں۔ بس زبان، رنگ، نسل کا فرق ہے۔ سوچ سب کی ایک ہے۔
سوچیں، انسان کی سب سے قیمتی شے اس کی جان ہے۔ خود اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے بھی اور ہماری پاک فوج کے شہزادے بغیر سوچے، سمجھے، کوئی سوال کیے بغیر یہ جان اپنی عوام کے سکون اور ملک کی خاطر قربان کر دیتے ہیں اور ہمارے اشرافیہ، صاحب اقتدارِ ایک پرتعیش بہترین حالات میں زندگی کی ہر آسائش سے لطف اٹھاتے ہیں اور زبان ہلا کر صرف تنقید کرتے ہیں اور جب کوئی مشکل وقت دور سے بھی نظر آئے، تو بھاگنے میں چند منٹ بھی نہیں لگاتے اور جب حالات کا دھارا پر سکون ہو کر بہے، تو پھر واپس آجاتے ہیں۔
اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعت بناتے ہیں۔ مگر جب تک زندہ رہیں، اپنے علاوہ کسی کو آگے نہیں آنے دیتے اور جب خود کی ہمت ختم ہوتی نظر آئے، تو بھی اپنی اولاد کی تخت نشینی کرنا چاہتے ہیں۔ عام ورکر کو کبھی اپنے برابر نہیں آنے دیتے۔ یہ وہی کارکنان ہیں جو اپنی فیملی لائف کو تباہ کرکے ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ جی حضوری کرتے ہیں۔ ان کی خاطر دشمنیاں پالتے ہیں۔ ان کی محبت میں اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ کر گلے لگاتے ہیں۔ مگر ان کے لیڈرز جب اپنے مفادات کے پیش نظر، کوئی ڈیل کرتے ہیں، تو کبھی ان کا نہیں سوچتے۔
آپ سب سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیں۔ ن لیگ کے چئیرمین نواز شریف نے بیگم کلثوم مرحومہ کا خواب پورا کرنے کے لیے مریم نواز شریف کو پہلے سی ایم پنجاب بنوایا، ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا ہے، ابھی تو سی ایم پنجاب کے فیصلوں کے ثمرات عام عوام تک پہنچنا شروع نہیں ہوئے کہ انھیں پی ایم بنانے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ آصف علی زرداری کی خواہش بھی بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنانے کی ہے۔ مگر پھر بھی آہستہ آہستہ منزل کی طرف چل رہے ہیں۔ مگر عام عوام سوچتی ہے کہ کیا پیپلز پارٹی میں ان کے علاوہ صدر بننے کے قابل کوئی نا تھا؟
مولانا فضل الرحمان ہر وقت اپنی اہمیت جتانے اور ایک بھرپور حصے کی خواہش میں برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ جب دیکھو احتجاج اور دھرنے کی دہمکی دیے رہے ہوتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہر وقت اپنی جماعت کو مضبوط کرنے کے شوق میں نا جانے کیا کچھ کرتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ میں لگتا ہے کامران ٹیسوری کے علاوہ کوئی نہیں رہا۔
تحریک انصاف کے تو کیا ہی کہنے، نا اس جماعت کو کام آتا ہے، نا ہی ان میں عقل اور سوچ نامی کوئی شے ہے۔ صرف فساد، احتجاج، جھوٹ، خون خرابہ، ناچ گانا اور تماشے اس جماعت کا حاصل ہے۔ اس جماعت کے پیروکار اور لیڈرز کو پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف اقتدارِ کی ہوس ہے۔ اندازہ کریں کہ لیڈر کی گھریلو زوجہ محترمہ چند ہزار مریدوں کے ساتھ وفاق پر حملہ کرتی ہے۔ لوگوں کا ناحق خون بہاتی ہے۔ صوبے کا پیسہ جلا کر خاک کر دیتی ہے۔ میڈیا پر سسرالی رشتوں کی طرح الزام تراشی کرتی ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ کیا عدالت کے علاوہ کسی کے پاس بھی ان کے شوہر کو رہا کرنے کا حق ہے؟ اگر ایسا ہوا تو یقین مانیئے یہ قانون کے تابوت کی آخری کیل ہوگی۔ کیوں کہ پھر فیصلے جتھے کیا کریں گے۔
کیوں نا ایک مرتبہ پھر ٹائٹینک کو ایک مختلف سوچ کے تناظر میں دیکھا جائے۔ یقین مانئیے آپ کو پاکستان کے بہت سے سیاستدان مختلف کرداروں میں نظر آئیں گے۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہم عوام میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے؟ یہ لیڈر سے محبت تو ہر گز نہیں۔ کیا ہم عام لوگ چند روپوں کی خاطر کچھ بھی کرنے پر تیار ہیں؟ جواب جانتی ہوں "ہاں" میں ہے مگر یہ ہاں بہت تکلیف دہ ہے۔
ہم عام عوام کب سدھریں گئے؟ آخر کب تک اپنے اصل محافظوں کے خلاف ٹرینڈز چلائیں گے؟ اور ان خود غرض سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کے جوتے سیدھے کریں گے۔ یہ لوگ آپ کے لیے اپنی جان نچھاور نہیں کریں گے۔ بلکہ سب سے پہلے جان بچا کر بھاگیں گے۔
ہماری حفاظت اللہ رب العزت کے بعد صرف پاک فوج کے شہزادے کریں گے۔ ہماری خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دیں گے اور گلہ بھی نہیں کریں گے۔ ڈوبتے ہوئے ٹائیٹینک پر سے صرف اپنی جان نہیں بچائیں گے بلکہ آخری سانس تک ہم عام عوام کی زندگیاں بچانے کی کوشش کریں گے۔
یہ وہ حقیقت ہے، جسے پاکستان کے تمام سیاستدان نا صرف اچھی طرح جانتے بلکہ سمجھتے بھی ہیں۔