Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. AI

AI

اے آئی

مجھے ایک حدیث یاد آئی مگر صحابی رسول ﷺ کا نام بھول گیا۔ اپنے بیٹے سے پوچھا کیا تمہیں یاد ہے کہ اس حدیث میں کس صحابی رسول ﷺ کا ذکر تھا۔ بیٹے نے موبائل پکڑا اے آئی سے پوچھا اور مجھے جواب دے دیا۔ میں نے کہا مجھے یقین نہیں یہ غیر اسلامی ٹیکنالوجی کا کارندہ درست بتائے گا۔ کیوں کہ اسے دجالی فتنہ کہا جا رہا ہے۔ بیٹے نے دوبارہ کچھ لکھا پھر بتایا کہ فلاں فلاں حدیث کی کتابوں میں اس کا مضبوط حوالہ ہے۔

میں سوچ میں پڑ گئی، عالم تصور کی پر خار وادی میں بھٹکنے لگی۔ تصور کی آنکھ نے دکھایا کہ مجھ جیسے محدود دینی علم کے مالک، اے آئی سے حدیث اور آیت کا ترجمہ اور تشریح پوچھ رہے ہیں اور وہ جو چاہے بتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ہم میں سے کتنے لوگ ہیں، جنھیں حدیث کا علم ہے؟ اور اس سے بھی کم ہیں جنھوں نے قرآن مجید کو ترجمے سے پڑھا ہے؟ خوف کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ بیٹے سے کہا تو وہ بولا اماں اے آئی تو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ شیطان کس طرح بہکاتا ہے؟

میں نے جل کر کہا اے آئی کو ہی ماں بنا لو۔ تربیت بھی کر دے گا۔ پال پوس کر بڑا بھی کر دے گا۔

بیٹے نے ہنستے ہوئے کہا یہ آپ جو کالم لکھتی رہتی ہیں۔ اے آئی سے بولیں وہ لکھ دے گا۔ مگر وہ تخلیق تو نہیں ہوگی۔ وہ تو جذبات سے عاری ایک مصنوعی تحریر ہوگی۔ بیٹے نے کہا آپ اپنے چند جملے لکھیں۔ حوالہ جات، واقعات اور اپنا تجزیہ لکھیں۔ اے آئی ان سب کو ترتیب دے کر ایک بہترین تحریر آپ کے سامنے رکھ دے گا۔

نہیں میری سوچ اور میرے جزبات ایک مصنوعی ربورٹ کیسے سمجھ سکتا ہے؟

تمہارا اے آئی یہ تو بتا سکتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی ہے۔ مگر اس مہنگائی کے نتیجے میں غریب کے دل پر کیا گزرتی ہے، وہ یہ نہیں بتا سکتا۔ تمہارا اے آئی دہشتگردی کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں کے اعداد وشمار بتا سکتا ہے۔ مگر لواحقین کے دکھ کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ ے تمہارا اے آئی لوڈشیڈنگ کے اوقات اور وجوہات بتا سکتا ہے، مگر غریب بل کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کے عذاب کیسے سہتے ہیں۔ یہ نہیں بتا سکتا۔ میں نے پھر جزباتی وار کیا۔

بیٹے نے کہا نہیں اماں جانی وہ پوچھنے پر فیلنگز بھی بتا سکتا ہے۔ آپ کو پتا ہے آپ کے فیورٹ وی لاگرز بھی اے آئی سے کام لے کر اپنے موضوعات پر بولتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے باقاعدہ ٹیموں کو ہائر کیا ہوتا ہے۔

ہاں وہ تو مجھے معلوم ہے، ظاہر ہے جب دن میں کم از کم دو اور زیادہ کی تو کوئی حد ہی نہیں، یو ٹیوب پروگرامز کرنے ہوں، پھر ٹی وی پر بھی ایک گھنٹے کا ذاتی شو کرنا ہو۔ پھر سب صحافیوں نے ایک دوسرے کے پروگرامز میں جا کر تجزیے پیش کرنے ہوں۔ تو پھر بیچارے بزرگ صحافیوں میں کہاں ہمت رہتی ہے کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ ان کی ٹیم ہی یہ سب کام کرتی ہے۔ جو حکم ہوتا ہے، وہی تجزیہ پیش کرکے عوام کی ذہن سازی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ میں نے تفصیلی جواب دیا۔

تو بس پھر آپ بھی اے آئی کی سہولت سے فائدہ اٹھائیں۔ کیا پتا کوئی اور یہ فائدہ اٹھا رہا ہو۔ بیٹے نے شرارتی مسکراہٹ سے جواب دیا۔

ہاں بھئی میری ٹوٹی پھوٹی تحریریں تو ایوان اقتدار کے محلوں میں زلزلہ لے آتی ہیں۔ سب انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب ایک غریب گئی گزری عوام کا اشرافیہ کے بغض میں لکھا، (اپنی طرف سے)کالم سامنے آئے گا اور ہم اپنے جرائم پر کانپنا شروع کر دیں گے۔

میں نے جل کر جواب دیا۔ بیٹے نے ہنستے ہوئے کہا تو چھوڑیں کیوں لکھتی ہیں؟ اے آئی کے ہوتے کیا ضرورت ہے، کالم یا کتابیں لکھنے کی۔

میں نے غصے سے کہ زرا اے آئی سے کہنا کہ تمہیں بھوک لگ رہی ہے، کھانا بھی بنا دے۔

بیٹے نے اے آئی سے کہا مجھے بھوک لگ رہی ہے۔

اے آئی نے جواب دیا کہ میں آپ کے لیے کھانا نہیں بنا سکتا مگر آپ کے گھر کے قریب سب فوڈ پوائنٹ کی لوکیشنز دے رہا ہوں۔ آپ آڈر کر سکتے ہیں۔

دیکھا یہ ماں ہی ہے جو ہر وقت تم لوگوں کی فرمائشیں پوری کرتی ہے۔ پراٹھے بنا کر دیتی ہے۔ میں نے فوراً اے آئی کی برائیاں کرنا شروع کر دیں۔

بیٹے نے کہا اماں اے آئی کی برائی نا کریں۔ یہ دیکھیں آپ کے یو ٹیوب چینل کا لنک ڈالا تو اس نے آپ کے چینل کی کتنی تعریف کی ہے۔ بیٹے نے مجھے دکھایا۔

تو ظاہر ہے، اچھی بات کی تعریف ہی کرنی تھی۔ مگر پھر بھی میں اے آئی کے ذہن سے نہیں سوچوں گی۔ میری اپنی سوچ، میرے جذبات، میری عقل میرے رب تعالیٰ کی دین ہے۔ یہ کسی کی محتاج نہیں۔ کوئی اسے قید نہیں کر سکتا۔ کوئی اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ میں نے فوراََ جزبات سے بھرپور جواب دیا۔

اور ہاں یاد رکھو یہ اے آئی انسان کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔ انسان اشرف المخلوقات ہے جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ یہ صرف آسانی پیدا کرنے والا ایک ٹول ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

پتا نہیں بیٹا قائل ہوا یا نہیں مگر سر ہلا کر بولا اماں جانی بھوک لگ رہی ہے کچھ کھانے کو دے دیں اور میں بھی آنکھوں سے گھورتی ہوئی اٹھ گئی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan