Adam Bardasht
عدم برداشت
تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تمام مومن ایک جسم کی مانند ہیں جب جسم کے کسی حصے میں چوٹ لگتی ہے تو درد سارے جسم میں ہوتا ہے۔ یہ وہ احادیث ہیں جو ابتدائی جماعتوں میں ہم میں سے ہر کسی کو پڑھائی جاتی ہیں۔ لیکن ہم بچپن کی محرومیوں اور دکھوں کو تو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں مگر اچھی بتائی اور سکھائی باتوں کو بھول جاتے ہیں۔ یا شاید یاد رکھنا ہی نہیں چاہتے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے یہاں لیڈر نہیں سیاستدان ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ وہ سیاستدان جو اپنی انا کا الم ہمیشہ اونچا رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کی ساری زندگیاں سیاست کرتے گزری ہیں۔ ان کے انداز سلجھے اور متانت سے بھرپور گفتگو نظر آتی ہے اور جو ذاتی بدلے لینے کی طویل جدوجہد کر کے آۓ نہیں بلکہ کہنا چاہیے لاۓ گئے ہیں۔ ان کی سوچ ان کی طفلانہ انداز گفتگو میں نظر آتی ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ان سیاستدانوں نے اپنے اس ذاتی بدلے کی آگ میں اپنے فالورز کو دکھیل دیا۔
اب عالم یہ ہے کہ کوئی بھی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ خاص طور پر 20 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں کا اخلاقی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ یہ لوگ اپنے سامنے نہ کسی عورت کا لحاظ کرتے ہیں نہ ہی کسی کی عمر کا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی بد لحاظی، اتنا تفرقہ کبھی نہیں دیکھا۔ آپ پبلک پلیس کو چھوڑیں نجی خاندانی محفلوں، دوستوں کی گیدرنگ میں کسی لیڈر کے خلاف رائے دیں۔ دوسرا شخص مرنے مارنے پر تل جاۓ گا۔
نعوذباللہ من ذالک وہ سیاستدان جو خود کو پیغمبر اسلام کا درجہ دیتے ہیں۔ دوسروں کی نیندیں اڑانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا پیغمبروں کے دلوں میں ایسی نفرت ہوتی تھی؟ دین اسلام تو یہ سبق دیتا ہے کہ دل میں بغض نہ رکھو ورنہ تمہاری عبادت قبول نہیں کی جائے گی۔ یہ کیسے سجدے ہیں، یہ کیسی عوامی خدمت ہے جو نفرتوں کا درس دیتی ہے۔ پاکستان نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ آخر اس ملک کا کوئی والی وارث ہے کہ نہیں؟
بہت سالوں پہلے جاوید چوہدری نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان میں نوجوان نسل ایک بم کی صورت میں سڑکوں پر چل پھر رہی ہے۔ اگر انھیں کام میں نہ لگایا گیا تو یہ کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اغیار نے یہ بات سمجھ لی اور ان بموں کو اپنی ضرورت کے مطابق چلانا شروع کر دیا ہے۔ ابھی تو چھوٹے دھماکے ہو رہے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ کسی دن اکھٹا ایک ہی دھماکہ ہو جائے پھر پچھتاوے باقی رہ جائینگے۔
میری ہاتھ جوڑ کر سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ اس ملک کو نفرت کی آگ میں مت دکھیلیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ جس نبی، حضرت محمد ﷺ کے آپ امتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جن کا نام سن کر آپ آبدیدہ ہو جاتے ہیں، کیا اس نبی ﷺ نے یہ تربیت دی تھی؟ وہ تو اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والوں کو معاف کرنے والے تھے۔ انھوں نے تو پتھر کھا کر بھی بددعا نہیں دی اور آپ لوگ کتنے فخر سے دوسروں کی نیندیں اڑانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دوسروں سے معافی کا مطالبہ کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے خود دوسروں سے کتنی معافیاں مانگی ہیں؟
خدارا عقل کر لیں۔ اس طرح تو بچے بھی نہیں کرتے۔ جس طرح کا رویہ اس ملک کے بڑوں کا ہے۔ دعا ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب کو عقل عطا فرمائے آمین۔