Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Aangan

Aangan

آنگن

پچھلے دنوں اپنی چھوٹی سی بک کلیکشن میں سے ایک ناول پڑھنےکا موقع ملا۔ خدیجہ مستور کا شہرہ آفاق ناول، آنگن، میں پہلے بھی یہ ناول پڑھ چکی تھی پر اس بار یہ ناول کچھ مختلف لگا اور اس بات کی سچائی کا شدت سے احساس ہوا کہ وقت اور حالات کے ساتھ سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔

ناول میں قیام پاکستان سے قبل کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی جب پاکستان بنانے کی جدوجہد جاری تھی۔ زبان و بیان، اور ماحول کی منظر کشی بےحد خوبصورت تھی۔ کہانی ایک ایسے گھرانے کی تھی جو اپنے مسائل کے باوجود سیاسی تقسیم میں مبتلا تھا۔ یعنی کچھ لوگ کانگریس اور کچھ لوگ مسلم لیگ کی حمایت میں تھے۔ حتیٰ کہ باپ بیٹا بھی سیاسی طور پر تقسیم تھے اور ایک دوسرے سے بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ اور گھر کی خواتین بھی اپنا الگ الگ نظریہ رکھتی تھیں۔ مگر مقصد سب کا ایک تھا، آزادی۔

مجھے یہ ناول پڑھ کر محسوس ہوا کہ آج پچھتر سال بعد بھی جبکہ ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہیں۔ ہم اسی لڑائی اور تفرقے میں پڑے ہوئے ہیں۔ تو کیا قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہماری سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی؟ اس سوال نے دل اداس کر دیا۔ آج بھی میری پارٹی اور تمہاری پارٹی ہو رہا ہے۔ باپ اور بیٹے کی اپنی اپنی پارٹی ہے۔ اختلاف اچھی چیز ہے اور صحت مندانہ بحث ذہنی ورزش کی طرح ہے۔ جو ذہن کو مضبوط کرتی ہے۔ مگر اس بحث میں بد تہذیبی کے کالے رنگ نے سب رنگوں کا ملیا میٹ کر دیا۔

دوسری بات آزادی تو حاصل کی جا چکی ہے۔ پھر اب کس بات کی لڑائی ہے؟ یہ ملک بہت زیادہ قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے دل خراش واقعات پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ کیا دل چاہتا ہے کہ اس ملک کے ایک پودے کو بھی آگ لگائی جائے؟ ہماری افواج اور عام شہری تو ابھی تک قربانیاں دے رہے ہیں۔ دشمن دہشت گردی کی صورت میں ملک کا امن تباہ کرنے پر درپے ہے۔ ماؤں کے لاڈلے، باپوں کے شہزادے اپنی بھرپور جوانیاں ہم پر وار رہے ہیں۔ اور ہم اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھے ہیں۔

ہمیں کس آزادی کی تلاش ہے؟

ہم الحمداللہ آزادی حاصل کر چکے ہیں۔ اب تو صرف اسے سنبھالنا ہے۔

میری ہاتھ جوڑ کر التجا ہے۔ صاحب اقتدار سے اور ان سے جو اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ اللہ کے واسطے اس ملک کا تماشا نہ بنائیں، ذاتی انا کی جنگ میں ملک کو رسوا نہ کریں اور نہ ہی نقصان پہنچائیں۔ کیوں کہ یہ ملک اس دنیا میں ہماری پہچان ہے۔ کیا کوئی خود سے اپنی پہچان بھی چھینتا ہے؟

Check Also

Aap Ki Wazir e Aala Aur Digital Propaganda War

By Syed Badar Saeed