25 May Youm e Takreem e Shuhada
25مئی یوم تکریم شہداء
چند دنوں پہلے یو ٹیوب پر جاوید چوہدری صاحب کا ایک وی لاگ سننے کا موقع ملا۔ جاوید چوہدری صاحب نے ایک ایسی بات کہی کہ سن کر میں ماضی میں پہنچ گئی۔ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی محبت اور پاک آرمی کی محبت یہ دو ایسے موضوع ہیں۔ جن سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیونکہ عوام ان کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ اور عوام کے دلوں میں ان کی محبت شدید ہے۔ الفاظ کا ہیر پھیر ہو سکتا ہے مگر ان کی بات کا مفہوم میری عقل ناقص میں یہی آیا۔
میں یہ بات سن کر اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گئی۔ مرحوم والد محترم نے 1965 اور 1971 دونوں جنگیں دیکھی تھیں۔ وہ ہمیں جب جنگ کی باتیں بتاتے تھے۔ تو ہم دم سادھے یہ قصے سنتے تھے۔ جوں جوں قصہ کلائمکس پر پہنچتا دل کی دھڑکن مزید تیز ہو جاتی۔
بڑھے ہوئے۔۔ شباب کا خوبصورت دور۔۔ کالج میں تھی۔ اس وقت مریم نواز شریف بھی سہیلی کے کالج میں پڑھتی تھیں اور نوجوان لڑکیوں میں مشہور تھیں۔۔ پھر پتا چلا ان کی آرمی آفیسر سے شادی ہوگئی تو باقاعدہ فری پیریڈ میں مریم نواز شریف پر رشک کیا گیا۔۔ وجہ شادی نہیں بلکہ آرمی افیسر سے شادی تھی۔
اپنی شادی کے بعد سسرال میں شوہر کے قریبی بھائی آرمی افیسر تھے۔ ان کے گھر جہلم میں گئے۔ میری زندگی کا بہترین اور پہلا آرگنائزرڈ لنچ اور ڈنر تھا۔ بھائی بے حد ملنسار تھے۔ مجھے یاد ہے میں نے بڑے بے تکے انداز میں پوچھا بھائی آپ کوگولی چلانا آتی ہے، اور وہ بجائے مزاق اڑانے کے مسکرا کر بولے جی بھابھی۔۔
شرمندگی مٹانے کے لئے ان کی مسز سے کہا بھابھی آپ کتنی لکی ہیں اپ کے تو مزے ہیں۔ نا کام کی ٹینشن، نا کوئی اور مسئلہ۔
بھابھی نے مسکراتے ہوئے جو جواب دیا آج تک بھولا نہیں۔
بولیں۔۔ مجھے ان کی غیر موجودگی میں کوئی مسئلہ نہیں۔ بچوں کے اسکول سے لے کر گروسری تک میرا ہر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ بس شوہر نہیں ملتا باقی سب کچھ مل جاتا ہے۔ جب وزیرستان میں ان کی ڈیوٹی تھی تو میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر رونے لگ جاتی تھی اللہ کے حضور ان کی سلامتی کی دعائیں مانگتی تھی۔ (یہ وہ دور تھا جب وزیرستان میں دہشتگردی کی جنگ چھڑی ہوتی تھی۔) جبکہ ان کی والدہ حیات رہیں بقول ان کے میں ہر روز اپنے اس بیثے کی زندگی کے لئے دونفل وقت تیجد پڑھتی ہوں۔ بتانے کا مقصد ہمیں آرمی والوں کی جو لگژری لائف نظر آرہی ہوتی ہے۔ اس کا خراج جدائی کی صورت میں ادا کی جا رہا ہوتا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی طرح ہمارے سپاہی دلوں میں شہادت کا جو جزبہ لے کر میدان میں اترتے ہیں۔ وہ بھی ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ کیوں کہ ہمارے دین نے ہمیں بتایا ہے کہ شہداء کو مردہ مت کہو اللہ کے نزدیک یہ زندہ ہیں۔
ہماری پاک آرمی دنیا کی بہترین آرمی میں سے ایک ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بہادر سپاہی مرتے ہوئے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ بلکہ شہادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ انسان کی جان جو اس کے لئے سب سے قیمتی شے ہے۔ ہمارے سپاہی بلا خوف وخطر اسے وطن پر قربان کر دیتے ہیں۔
بیٹوں کی ماں ہونے کی حیثیت سے میں جب یہ سوچوں تو میری روح کانپ جاتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ وہ بھی تو ہمارے جیسی مائیں ہیں۔ جو اپنے خوبصورت شہزادوں کو اللہ کے سپرد کرکے رخصت کرتی ہیں۔
ماں باپ نے ایک بچہ اپنی پوری جوانی خرچ کرکے پروان چڑھایا۔ اور جب اس کا شباب عروج پر تھا تو وہ چلا گیا۔ اپنے اصل گھر۔۔ سوچیں جب اس کا بےجان وجود گھر واپس اتا ہوگا تو خاندان والوں پر کیا گزرتی ہوگی؟
یہی وجہ ہے کہ شہید کے وارثوں کی لوگ دل سے تکریم کرتے ہیں۔ اور جب کسی نے اس عزت، قربانی اور تکریم کو ٹھیس پہنچانے کی جرات کی۔۔ تو اس کا کیا حال ہوگا بتانے کی ضرورت نہیں۔
وہ نام نہاد لیڈر جو نشے میں دھت بھینسے کی طرح آگے بڑھتا ہی جارہا تھا۔ کسی کی عزت اس کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھی وہ کس زعم میں تھا۔ اپنے دل ودماغ کے اندھے پیروکاروں کے ساتھ مل کر اس نے یادگار شہداء کی بے حرمتی کی جرات بھی کیسے کر لی۔
زبان تو کھلی ہی تھی ہاتھ بھی کھل گئے۔ خود کو سب سے بڑی جماعت کا لیڈر کہنے والا اپنی اوقات سے ہی باہر نکل گیا۔ قوم کے دل پر ہاتھ ڈال دیا، عوام کا کلیجہ نوچ کر رکھ دیا۔ ہمارےمعصوم بچے خوفزدہ ہوگئے۔ کون ہےجس نے میڈیا کے ذریعے شہداء کی توہین نہیں دیکھی، وردی کی تذلیل سے کس کا دل خون کے انسو نہیں رویا۔
بائیس کروڑ کا ملک چند ہزار لفنگے اس پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
عمران خان آپ کو زندگی میں خواتین کے گندے تعلقات کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آپ کو اندازہ نہیں محبت اللہ اور حرمت رسول کے بعد پاکستانی قوم سب سے زیادہ محبت اپنی آرمی سے کرتی ہے۔ اور شہداء کی جو تکریم عوام کے دلوں میں ہے اسے کوئی نہیں مٹا سکتا۔
عمران خان اپ ایک رات صرف ایک رات سرحد پر گزار کر دکھائیں، بقول آپ کے میں اپنی قوم کے لئے سب کچھ کر رہا ہوں۔ تو ہماری حفاظت کے لئے سرحد پر جائیں، تا کہ آپ کو پتا چلے قربانی کیا ہوتی ہے۔
عمران خان کے پیروکار ان شہداء کی یادگاروں کی ںے حرمتی کر رہے تھے۔ جن کے وارثوں کو چیف آف آرمی اسٹاف سیلوٹ کرتا ہے۔ ان کے سر پر دست شفقت رکھتا ہے۔ قوم اپ کو کیسے معاف کر دے۔
جنھوں نے مسجد نبوی کی بے حرمتی کی ہمارے دلوں کو چیر کر رکھ دیا۔ پھر ہمارے شہداء کی توہین کی۔ اور دل پر مزید نشتر لگائے۔ ہم انھیں کبھی معاف نہیں کر سکتے۔
جلد یا بدیر ان کو سزا ملنی چاہیے تاکہ قوم کے زخمی دلوں پر مرہم رکھا جا سکے۔ اور دنیا کو پتا چلےہمارے شہداءکی تکریم پر کوئی کمپرومائز نہیں۔ ہماری پالیسی زیرو ٹارلینس ہے۔
عمران خان کی والدہ شوکت خانم نے ملک وقوم پر کوئی احسان نہیں کیا تھا اس کے باوجود عوام کے پیسے سے یہ ہسپتال بنایا گیا۔ جہاں عام عوام کاہی علاج نہیں ہوتا۔ جنھوں نے اپنے شیر بیٹے ملک پر قربان کر دئے۔ ان ماؤں کے دلوں کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ ازالہ کون کرے گا؟ اور آخر کب ہوگا؟ شاعر نے کہا تھا
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو ہے جو شہید کا وہ قوم کی زکوٰۃ ہے
شہداء نے تو اپنے لہو سے حیات بھی دے دی اور زکوٰۃ بھی ادا کر دی۔ اب ہماری باری ہے۔ کہ ہم ان کی تکریم کے لئے صرف ایک دن منائیں گے یا اس تکریم کی حفاظت کریں گے۔
فیصلہ جلد ہونا چائیے۔