16 December
16 دسمبر
سولہ دسمبر کی تاریخ میں اپنی آخری سانس تک نہیں بھول سکتی۔ یہ تاریخ صرف مجھے نہیں بلکہ بہت سی پاکستانی ماؤں کو بھی ہمیشہ یاد رہے گی۔ اپنی جان سے پیارے بچوں، اپنے کل اثاثے کو اسکول بھیجتے وقت کسے علم تھا کہ وہ واپس تابوت میں آئیں گے۔ سولہ دسمبر کے اس سانحے کے بعد مجھ جیسی بہت سی مائیں ایک خوف میں جکڑ گئیں۔ اس خوف کی شدت وقت کے ساتھ کم تو ہوئی مگر ختم نہیں ہوئی۔
قوموں کی زندگی میں ایسے بہت سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ جو عام عوام کی زندگیاں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ پشاور سانحہ ایسا ہی دلخراش سانحہ تھا۔ اس سانحے کی شدت سے عوام کے ساتھ خواص بھی اپنی جگہ ہل کر رہ گئے۔ پوری دنیا کے حساس لوگوں کی آنکھیں اس بربریت پر نم ہوگئیں۔ اس سانحے نے پوری قوم کو متحد کر دیا۔ لیکن عام عوام کی حیثیت سے میں سوچتی ہوں کہ ہمیں متحد ہونے کے لیے فرشتوں کے ننھے تابوتوں کی ضرورت کیوں پڑی؟
اس سانحے کے بعد 126 دن کا وہ دھرنا ختم ہوا۔ جس نے پورے پاکستان کو ذہنی اذیت سے دوچار کیا ہوا تھا۔ دھرنے کی خون آشام بلا معصوم فرشتوں کا خون پی کر مطمئن ہوگئی اور سب ایک میز پر بیٹھ گئے۔ سیاستدانوں کی اس بے شرمی اور بے حسی کو عام عوام آج تک بھولی نہیں۔ کیا تھا جو پہلے ہی اکھٹے ہو کر بیٹھ جاتے۔ کیا مل کر بیٹھنے کے لیے سانحہ ضروری ہے؟
انہی دنوں وہ ویڈیو بھی نظروں سے گزری۔ جس میں ایک بوڑھا سیاست دان شیروانی پہنے نئی نویلی دلہن کے ساتھ فوٹو شوٹ کروا رہا تھا اور پھر جب اپنی دلہن کے ساتھ پشاور اسکول پہنچا تو ایک ماں کے چیختے روتے سوال آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔
پاکستان پچھلی کچھ دہائیوں سے ہمہ وقت حالت جنگ میں ہے۔ دہشت گردی کا ناسور کاٹ کر پھینکنے کے بعد پھر سامنے آجاتا ہے۔ کیوں کہ اغیار سے پاکستان کا وجود اور سالمیت برداشت نہیں ہوتی۔ یہ مسلسل کوشش کرتے ہیں اور پاک فوج بھی تھکے بغیر مسلسل ان ناپاک کوششوں کو ناکام بناتی رہتی ہے۔
16 دسمبر کو بھی احتجاج چل رہا تھا۔ کے پی کے حکومت وفاق کے خلاف احتجاج میں مصروف تھی۔ اس وقت کا وزیر اعلیٰ پرویز خٹک دھرنے میں ناچنے اور تقریریں کرنے میں مصروف تھا اور دشمن گھات لگائے بیٹھا تھا اور آج بھی تحریک انصاف کا یہی وطیرہ ہے۔ انھیں ہمیشہ احتجاج اور یلغار کرنے کی عادت ہے۔
یہی عادت ان سے نو مئی کا سانحہ کروانے کا سبب بنی۔ کیوں کہ یہ انتشار کو پسند کرتے ہیں۔
جب آپ اپنے محافظوں کو سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک کے بے مقصد مسائل میں الجھائیں گے۔ تو سانحے ہی رونما ہوں گے۔
پاکستان کی حفاظت اللہ رب العزت کے بعد پاک فوج کے جوان کرتے ہیں۔ اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے وقت دوسرا خیال ذہن میں نہیں آنے دیتے۔
سردی کی برفانی راتوں میں سرحدوں پر جاگتے ہیں اور ہم عام عوام گرم کمروں میں، اپنے گرم بستر پر بیٹھ کر موبائل فون یا لیپ ٹاپ چلاتے ہیں۔ بھاپ اڑاتی چائے یا کافی کا سپ لیتے ہیں۔ ڈرائی فروٹ کھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ فوج کے خلاف ٹرینڈ کون سا چلانا ہے؟ کس بات پر تنقید کرنی ہے؟
کیا ایسے لوگوں کا ضمیر زندہ ہے؟ زرا سا بھی احساس جاگتا ہے؟
میری صاحب اقتدار اور عام عوام سے صرف اتنی التجا ہے کہ اپنی فوج کو تھکائیں نا۔ ان پر بے مقصد تنقید کرکے ان کا مورال نا گرائیں۔ انھیں سراہیں۔ اپنی بے لوث محبت سے انھیں حوصلہ دیں، کیوں کہ آپ کے نام نہاد لیڈرز آپ کی خاطر خود کو خراش بھی نہیں لگنے دیں گے۔ جان دینا تو بہت دور کی بات ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مدد اور ہمت سے یہ فوج ہماری حفاظت کر رہی ہے اور دنیا میں ہمارا مقام قائم رکھے ہوئے ہے۔ بدلے میں اپنی پاک فوج سے صرف محبت کا اظہار کریں۔ ان کی عزت کریں۔ کیوں کہ اسی میں ہماری عزت پوشیدہ ہے۔