Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Umm e Abeeha

Umm e Abeeha

اُمّ ِاَبیہاؑ

تاریخ نہ صرف یہ کہ ہمیشہ بزرگوں کی بابت گفتگو کرتی ہے بلکہ تاریخ کا موضوعِ توجہ بھی محض بزرگ ہستیاں ہی ہوتی ہیں بچوں اور کم سنوں کو تاریخ ہمیشہ فراموش کر دیتی ہے۔

فاطمہ اپنے گھر میں سب سے کم سن تھیں۔ ان کی طفلی کا زمانہ طوفان مشکلات و حوادث میں گزرا۔ ان کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ طبری، ابنِ اسحق اور سیرت ابن ہشام میں آپ کا سن ولادت 5 قبل بعثت بتایا گیا ہے اس کے برعکس مسعودی کی مروج الذہب میں آپ کی ولادت بعثت کے بعد پانچویں سال میں بتائی گئی ہے۔ یعقوبی نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے وہ سن ولادت کا تعین نہیں کرتا بلکہ آپ کی ولادت کو پس از نزولِ وحی قرار دیتا ہے۔ اسی اختلاف روایات کے سبب اہل سنت نے آپ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل اور شیعوں نے بعثت کے بعد پانچویں سال میں تسلیم کی ہے۔

لیکن اہم ان اختلافی مباحث سے قطع نظر کرکے ان کو محققین کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ محققین کا کام ہے کہ آپ کے سن ولادت کا صحیح تعین کریں ہمیں تو دراصل جنابِ فاطمہؑ کی شخصیت اور آپ کی حقیقت اور معنویت کے متعلق گفتگو کرنی ہے۔ ہمارے موضوعِ گفتگو پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی ولادت قبلِ بعثت ہوئی یا بعدِ بعثت۔

جو ایک بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ فاطمہ گھر میں بالکل تنہا تھیں۔ آپ کے دونوں بھائی بچپن ہی میں انتقال کر گئے آپ کی سب سے بڑی بہن زینب جو بڑی بہن ہونے کے ناطے ماں کی جگہ تھیں، ابی العاص کے گھر بیاہ کر چلی گئیں۔ جنابِ فاطمہ نے ان کی جدائی کی تلخی اور صدمہ کو محسوس کیا۔ اس کے بعد رقیہ اور ام کلثوم کے عقد کی باری آئی اور وہ دونوں بھی اپنے اپنے شوہر کے گھر چلی گئیں اور فاطمہ تنہا رہ گئیں اور یہ صورتِ حال بھی اس روایت کو تسلیم کرنے سے مطابقت رکھتی ہے کہ جس میں آپ کی ولادت کو پانچ سال قبلِ بعثت قرار دیا گیا ہے ورنہ اگر آپ کی ولادت بعثت کے بعد پانچویں سال میں تسلیم کی جائے تو ایسی صورت میں آپ نے جب سے ہوش سنبھالا خود کو اپنے گھر میں تنہا پایا۔

بہر حال آپ کی زندگی کا دورِ آغاز اور آپ کے پدرِ بزرگوار کی عظیم رسالت کے کام کا آغاز ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہے۔ یہ دور خاندانِ رسالت کے لیے بڑی شدید آزمائشوں، مصیبتوں اور سختیوں کا دور تھا۔ آپ کے پدرِ بزرگوار خلقِ خدا کو غفلت سے بیدار کرنے کے عظیم کام کا آغاز کر چکے تھے اور اس کے نتیجہ میں تمام انسانیت دشمن قوتوں کی دشمنی کا ہدف بن گئے تھے اور آپ کی مادرِ گرامی اپنے محبوب شوہر کی دلجوئی اور دلسوزی میں ہمہ تن مصروف تھیں اس صورت حال میں فاطمہ کو جو زندگی کا پہلا تجربہ ہوا وہ رنج و اندوہ کا تجربہ تھا اور آپ نے بچپن ہی سے زندگی کو ایک شدید آزمایش کے طور پر محسوس کیا۔ چونکہ اس وقت آپ بہت ہی کم سن تھیں اس لیے گھر سے باہر نکلنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔

اس آزادی سے آپ نے یہ فائدہ اٹھایا کہ آپ اپنے والد کے ہمراہ ان کی تبلیغی مہم میں شریک رہیں۔ جناب فاطمہؑ کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ ان کے پدرِ بزرگوار کو یہ فرصت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی انگلی پکڑ کر اسے شہر کے کوچہ و بازار میں سیر کرا سکیں، وہ اپنی رسالت کے عظیم اور پر خطر کام میں مصروف تھے وہ جانتے تھے کہ شہر میں ہر طرف دشمنی اور مخالفت کا طوفان موجیں مار رہا ہے اس لیے وہ اس طوفان سے نمٹنے کے لیے اکیلے ہی اپنی مہم پر روانہ ہو جاتے ہیں لیکن ان کی چہیتی بیٹی جو اپنے باپ کی عظمت اور حقیقت کا شعور رکھتی تھی ان کو ان خطرات میں تنہا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھی۔

اس بیٹی نے بارہا یہ منظر دیکھا کہ ان کے پدرِ بزرگوار لوگوں کے ہجوم میں تنہا کھڑے ہیں اور انہیں ایک شفیق باپ کی طرح نرمی اور محبت سے حق کی تعلیم دے رہے ہیں۔ پیغمبر خود کو تنہا اور بے یارو مدد گار محسوس کر رہے ہیں مگران کے عزم اور حوصلہ میں کوئی فرق نہیں آتا جب کوئی ایک گروہ ان کی بات سننے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ لوگوں کے کسی دوسرے گروہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

مگر یہاں بھی لوگ ان کا مذاق اڑانے اور ان کے ساتھ نا مناسب زبان استعمال کرنے کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں دیتے اسی طرح تمام وقت گزر جاتا ہے بالآخر حضور خستہ و درماندہ اپنی بے ثمر مہم سے واپس لوٹتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے دوسرے بچوں کے باپ اپنے اپنے کام سے لوٹتے ہیں تاکہ گھر میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد پھر اپنے کام کا آغاز کر سکیں۔

تاریخ ہمیں یہ واقعہ یاد دلاتی ہے کہ ایک دن پیغمبر مسجد الحرام میں تھے کہ لوگوں نے ان پر دشنام طرازی کی اور انہیں زدو کوب کیا۔ کم سن فاطمہؑ بےبسی اور رنج کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہی تھیں اس نا خوشگوار حادثہ کے بعد وہ اپنے باپ کو ساتھ لے کر گھر لوٹیں۔

پھر ایک روز یوں ہوا کہ پیغمبر مسجد الحرام میں نماز ادا کر رہے تھے جب آپ سجدہ کی حالت میں تھے تو دشمنوں نے بھیڑ کی اوجھڑی آپ کے سر مبارک پر رکھ دی۔ فاطمہؑ نے یہ منظر دیکھا تو بے تاب ہوگئیں۔ آپ اپنے باپ کے نزدیک گئیں۔ اس غلاظت کو ان کے فرقِ مبارک سے ہٹایا اور پھر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ان کے سر کو گندگی سے پاک کیا ان کے ساتھ طفلانہ محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا اور پھر اپنے اپنے پدرِ بزرگوار کو ساتھ لیے کہ گھر کی طرف پلٹیں۔

لوگ اس کمسن اور کمزور و نحیف بچی کو ہمیشہ اپنے عظیم المرتب باپ کی تنہائی کا رفیق اور مونس و غم خوار پاتے تھے وہ دیکھتے تھے کہ کس طرح یہ معصوم اور کم سن بچی اپنے باپ سے محبت کرتی ہے۔ ان کو ہر طرح آرام پہنچانے کی کوشش کرتی ہے اور اپنے باپ کو مصیبت اور رنج سے نجات دلانے کے لیے ہمہ تن مصروف رہتی ہے وہ اپنی باتوں سے اپنے طور طریقوں سے اور اپنی معصومانہ محبت سے اپنے باپ کو تسکین و تسلی دیتی ہے اور ہر طرح ان کے دکھ درد بانٹنے میں مصروف رہتی ہے، ایک چھوٹی سی بچی کا اپنے باپ کے ساتھ یہ بے مثال رو یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے کہ یہ بیٹی صرف بیٹی نہیں بلکہ یہ اپنے باپ کے ساتھ ماں کا سا برتاؤ کرتی ہے۔

یہ ام ابیہا ہے۔

(یہ مضمون ڈاکٹر علی شریعتی کی کتاب "فاطمہ فاطمہ ہے" سے لیا گیا)۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari