Election Vaccine
الیکشن ویکسین
زرا سوچیے!کیا مسائل کا حل الیکشن ہے؟ وہی دو سو خاندان میوزیکل چیر گیم کھلیں گے پی ٹی آئی سے پی پی پی اور پی پی پی سے نون لیگ یعنی پھر وہی لوگ پارلیمنٹ اور سینٹ میں ہوں گے اور اپنے آقا IMF سے بھیک مانگ رہے ہوں گے غریب عوام پر مزید ٹیکس کا بوجھ لاد رہے ہوں گے۔
میرا ایک دوست بہت انقلابی ہے کچھ دن پہلے وہ کسی چوہدری کے لیے ووٹ مانگنے آیا تھا میرے پاس۔ میں اس کے جذبے کی قدر کرتا ہوں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں۔ میں نے اس سے کچھ سوالات کیے
سچ بتاؤ کیا کرنے آئے ہو؟
ہمیں یہ بتانے کے حالات بہت خراب ہیں
سچ بتاؤ ووٹ مانگنے تاکہ انقلاب لاسکیں
خیر ووٹ تو آپ ہی کو دے دیں گے
یہ سید صاحب کو دیا یا چودھری صاحب کو ایک ہی بات ہے۔
پہلے بھی ان کو ہی دیا تھا انقلاب تو نہیں آیا؟
ابھی تو الیکشن میں وقت ہے پہلے آپ الیکشن جیتیں گے پھر حکومت میں آئیں گے پھر ہمیں بتائیں گے کی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
فوجی آنکھیں دکھاتے ہیں۔
پھر آپ کو پتہ چلے گا ملکی سلامتی خطرے میں ہے۔ اسلام خطرے میں ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کی کرسی خطرے میں پڑ جائے۔
پھر ہمارے پاس آئیں گے وہی راگ گائیں گے جو ابھی گا رہے ہیں۔ دیکھئیے ایسے بہت سے مخلص نوجوان ہیں جو اس غلط سسٹم کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔
میں اگر اس سسٹم کو غلط کہہ رہا ہوں تو کوئی تو وجہ ہوگی۔ ہمیں سوالات کرنے چاہیے۔ چیزوں کو سمجھنا چاہیے۔ الیکشن کو اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں یہ بات واضح ہے کہ حکمران طبقہ عوام میں سے نہیں ہوتا جگیردار، سرمایہ دار، کاروباری بندہ ہی ہوتا ہے۔ جب کہ مصیبتوں یا طوفانوں، زلزلہ یا قحط آئے۔ نقصان ہمیشہ عوام نے اٹھایا ہے جب پارلیمنٹ میں ایک جاگیردار بیٹھا ہے۔ کیا وہ عوام کے لئے قانون سازی کرے گا۔ عوامی مسائل کی جڑ اگر یہ جاگیردار، کاروباری لوگ ہیں تو کیا یہ اپنے خلاف قانون سازی کریں گے؟ ہمارے پاس الیکشن میں کتنے آپشن ہوتے ہیں؟ سارے امیدوار ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر ہماری نظر میں سارے امیدوار اہل نہیں ہیں تو کیا ہمارے پاس None of these والا آپشن موجود ہے۔ نہیں
پہنچ گئے ہیں الیکشن کے پھر دوارے پر
تم ہی بتاؤ میرے بھائی کس طرف جائیں؟
ادھر "میاں" ہے ادھر "مائی" کس طرف جائیں؟
ادھر کنواں ہے ادھر کھائی کس طرف جائیں؟
(عنایت اللہ خان)
کیا آپ کو پتا ہے کہ الیکشن میں کتنا پیسہ لگتا ہے؟ پہلے یہ دیکھیں کہ ایک ایم این اے یا ایم پی اے تقریبا تین مہینے الیکشن کمپین کرتا ہے اور اس عرصہ میں کتنی گاڑیاں ساتھ ہوتی ہیں ان کو فیول ان کا رینٹ باقی خرچہ جیسے جلسے، اشتہارات اس کے علاوہ جو لوگوں کو پیسے دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ گاؤں لیول پر ایک نمبر دار یا وڈیرے کو لاکھوں روپے دیے جاتے ہیں اس لیے کہ وہ اس کے حق میں ووٹ ڈلوائے گا۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ ایک یا دو لاکھ تنخواہ کے لیے کرتے ہیں۔ ایم این اے یا ایم پی اے کے الیکشن میں انویسٹرز بھی ہوتے ہیں آپ لوگوں کا سوال ہوگا کہ وہ کون لوگ ہیں جو پیسہ انویسٹ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حلقے کے اندر غیر قانونی کام کر رہے ہوتے ہیں مثلا منشیات فروش وغیرہ یہ لوگ کیوں پیسہ انویسٹ کرتے ہیں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ لوگ کہیں گے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے آپ کو پتہ ہے جمہوریت کیا ہوتی ہے؟ جمہور مطلب عوام۔ جمہوریت مطلب عوام کی حکومت۔ مطلب جس طرف عوام کی اکثریت ہوگئی وہ پارٹی حکومت کرے گی۔ اب ہم اس جمہوریت کو اپنے الیکشن سسٹم میں دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ کتنے فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہیں؟ 30 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔ مطلب 60 سے 70 فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہی نہیں ہیں۔ مطلب وہ اس سسٹم سے ہی انکار کر رہے ہیں یہاں ہماری جمہوریت کہاں گئی۔
چلیں مزید دیکھ لیتے ہیں مثلا 35 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈال دیا کم سے کم تین سے چار بڑی پارٹیاں میدان میں ہوتی ہیں ویسے تو دو سو کے قریب پارٹیاں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹر ہیں اب اس 35 فی صد ووٹ کو چار پارٹیوں میں تقسیم کریں۔ اور اب دیکھو جو 10 سے 15 فیصد ووٹ لینے والی پارٹی ہے وہ ان پر حکومت کرے گی جو 80 سے 90 فیصد لوگ ہیں۔ اب ہماری جمہوریت کہاں گئی؟ اور ووٹر کی اہلیت کا کوئی معیار ہی نہیں ہے مطلب پڑھے لکھے اور ان پڑھ کا ووٹ برابر۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں غلاموں کو بذریعہ الیکشن صرف اپنا آقا بدلنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن اپنی قسمت بدلنے کا نہیں۔
اب ہمارے میڈیا کا کام دیکھ لیں۔ کوئی بھی چینل کھول کر دیکھ لیں الیکشن کی ہی باتیں ہو رہی ہوں گی جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی الیکشن ہے سیکورٹی، غربت وغیرہ کوئی مسئلے ہی نہیں ہیں۔ اور آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ ہو وہ اقتدار میں آتا ہے۔ پھر آپ لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ جب ہمارے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو یہ سارا الیکشن والا ڈرامہ کیوں کیا جاتا ہے؟ یہی ہمارا اصل سوال ہے اور اس تحریر کا موضوع بھی۔
میڈیا کے ذریعے پورا ڈرامہ کیا جاتا ہے اور الیکشن کو ہی سب سے بڑا مسئلہ بتایا جاتا ہے جیسے الیکشن ہی سب مسئلوں کا حال ہے یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ اصل مسائل کی طرف سے دھیان ہٹا یا جا سکے۔ جیسے ایک انسان کو بے ہوش رکھنے کے لیے انجیکشن لگایا جاتا ہے اور وہ پھر جب ہوش میں آنے لگتا ہے تو پھر دوبارہ انجیکشن لگا دیا جاتا ہے اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ انسان مرتا بھی نہیں ہے اور بےہوش بھی رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے الیکشن بھی ایک ویکسین ہے۔ جیسے ہی عوام کو ساری گیم سمجھ آنا شروع ہوتی ہے کہ یہ غلط سسٹم ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہی فرسودہ نظام ہے۔ پھر الیکشن والی ویکسین لگا دی جاتی ہے۔ جیسے فلم کی شوٹنگ ختم ہونے کے بعد ہیرو اور ولن دونوں اکھٹے کھانا کھاتے ہیں، خوش گپیاں مارتے ہیں اور ایک ہی ڈائریکٹر معاوضہ وصول کرتے ہیں لیکن فلم دیکھنے والوں کو فلم میں ہیرو اور ولن جانی دشمن کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں تاکہ ہیروں کے ساتھ فلم بینوں کی ہمدردیاں ملے اور زیادہ سے زیادہ فلم بینوں کو سینما لایا جاسکے پاکستان کی سیاست بھی بلکل ایسی ہی ہے۔
کیا عجب تماشہ ہے کیا عجب نظارہ ہے، ایک کی حکومت دوسرے کو گھسیٹا جارہا ہے۔ چوک پر لٹکانے کے دعوے ہیں۔ اور مخالفین کی ذاتی کردار کشی ہورہی ہے اور پھر جانے کون ان زبردست مخالفین کو باہم متحد اور شیرو شکر کردیتا ہے۔ اس طرح فلم کا ڈائریکٹر (سامراج) منافع وصول کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اداکاروں کو اپنا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے اور عوام فلم دیکھنے والوں کی طرح اپنی محنت کی کمائی خوشی ان کے حوالے کرتی ہے اور یہ ویب سیریز جاری رہے گی۔ پچھلے 75 سالوں سے ہماری قوم کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔
آپ لوگوں کا آخری سوال یہ ہوسکتا ہے۔ چلو مان لیا الیکشن سسٹم غلط ہے۔ تو اب ہم کیا کریں اس کا حل کیا ہے؟ دیکھیں جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے تب ہی اس کا حل نکالا جاتا ہے۔ بغیر کسی مسئلہ کے اس کا حل کیسے ہو سکتا ہے؟ جب تک ہم کسی بیماری کو بیماری نہیں سمجھیں گے اس وقت تک ہم اس کا علاج کیسے کر سکتے ہیں۔ جب تک ہم اس مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھیں گے تب تک اس کا حل نہیں ہو سکتا۔ اور سیاست کوئی حلوا نہیں ہے کہ پلیٹ میں تمام مسائل کا حل کرکے پیش کر دیا جائے۔
الیکشن کے علاوہ بھی ہمیں تمام چیزیں شعوری بنیادوں پر پرکھنی چاہیں۔ منظم شعوری جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو دین اسلام کے عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے نظریے پر تربیت دینی چاہیے۔ ان میں اجتماعی تنظیم کی اہمیت پیدا کی جائے۔ عدم تشدد کی بنیاد پر معروضی تقاضوں کا لحاظ کرکے تبدیلی کا عمل آگے بڑھے۔ جس کے نتیجے میں کل قومی ریاستی ڈھانچے کو جدید دور کے تقاضوں اور قومی ضروریات کے تناظر میں ڈھالا جاسکے، اللہ پاک اس عمل میں ہمارا حامی و ناصر ہو۔