Uncle Sam, Bane Ghashnam
انکل سام ، بنے گھشنام
انکل سام! آپ کو یاد تو ہو گا ایک زمانے میں ہمارے مشہور افسانہ نگار منٹو نے آپ سے ایک ننھے منے ایٹم بم کی فرمائش کی تھی۔ ہم چونکہ ترقی پذیر قوم ہیں اس لیے منٹو کی فرمائش اب کہیں جا کر آپ تک پہنچی اور آپ نے پھٹا ہوا بم یعنی خط ہمیں بھجوا دیا۔ ہمارے کلاسیکی شعرا روتے روتے اس دنیا سے چلے گئے مجال ہے جو کسی کا بھی خط محبوب تک پہنچا اور اس کا جواب ملا ہو۔ شاعر سوال کرتا رہا آخر کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں۔ بس تو سمجھ لیجیے آپ کے خط کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ یہ آپ کے ہی خط ہیں جو تقسیم در تقسیم سوال بھی بنتے ہیں اور جواب بھی۔
کوئی بھول جائے اپنا ہی گھر، تم کو اس سے کیا۔ انکل سام آپ پدری سوسائٹی کے قائل ہیں تبھی خط "فرازی گروہ" تک پہنچا اور انھوں نے اپنی فرازیت قائم رکھنے کے لیے ساری قوم کو نشیب میں دھکیل دیا۔ ہم نےاس خط کو موثر بنانے کے لیے تھوڑی بہت ٹیکنالوجی لگا کر اس میں مرچیں بھر ڈالیں تا کہ حکومت وقت کی نظر اور اپوزیشن کو قبر میں اتارا جا سکے، ذرا سی ہوا چلنے سے یہ مرچیں اب پوری قوم کی آنکھوں میں چبھ رہی ہیں۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
انکل سام ایک دنیا آپ کو سپر پاور سمجھتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے مخصوص دانش ور ایک عرصہ تک ہم سب کو آپ سے ڈراتے رہے۔ اپنا ڈر دور کرنے کے لیے انھوں نے جاسوسی کے لیے اپنے بچوں کو آپ کے ہاں بھیج رکھا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ہماری تہذیب کی برائیاں کر کے آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتے رہیں۔
ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
آپ کی لاٹھی کا رعب اتنا زیادہ ہے کہ ہمارے گزشتہ وزیراعظم نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ پارٹی چندہ ڈائریکٹ بھیجا کریں تا کہ مجموعی طور پر ہم آپ کے غلام رہ سکیں لیکن آپ تو ایسے کچے نکلے کہ خط لکھا اور پکڑے گئے۔ ہمارے ہاں دیکھیے کبھی جو مجرم پکڑے گئے ہوں۔ کھرا ان کے گھر پہنچنے تک ایسی سرجری کی جاتی ہے کہ ہم سب ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے فنا ہو جاتے ہیں۔ ان پری زادوں کی بے داد گری روز محشر تو ہو گی ناں۔
ہم نے ایٹمی پروگرام بنایا لیکن آپ پردہ میں رہ کر دھمکاتے رہے۔ آپ کی Do more، Do more کی مبہم صدا سے ہم پاکستانی کچھ اور ہی سمجھ کر سب ادھر ادھر کرتے رہے۔ یہاں تک کہ سبزی اور فروٹ کی ریڑھی لگانے والا بھی ترازو پر مقناطیس چپکا کر اور فرنٹ مین اپنی مہر لگا کر " ڈو مور" میں حصہ ڈالتا یا ڈالتی رہی۔ اعداد و شمارسے ہنوز نا واقف ہیں۔
دراصل دانے بہت تیزی سے گرتے ہیں اور ہماری قوم حساب میں بہت کم زور ہے۔ غیرت مند ہوتی تو کیا 75 سالوں میں غاصبوں کا حساب نہ بے باق کر دیتی۔ ویسے تو ہماری قوم اب کافی بے باک ہو چکی ہے۔ بھلے سے عوام ایک دوسرے کو کافر مشرک کے طعنے مارتی رہے لیکن ہمارے عالم صاحب فرقہ بندی کی بات نہیں کرتے، محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑے کر کے " چمیاں " دیتے ہیں اور عقائد کے اتنے پکے ہیں کہ سیاسی اختلاف پر اپنے ہم عصروں سے "کٹی" کر دیتے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ محبوب کی توجہ کی طرح ہم آپ کی پسندیدگی سے بھی غافل ہیں۔ بس ہر دور میں الٹی سیدھی چھلانگیں لگا کر آپ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن آپ پتہ نہیں کیا چاہتے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ ہم اساتذہ کی جو تذلیل کی گئی اور ہو رہی ہے وہ بھی آپ کا ہی حکم ہو گا کیونکہ آپ کی انگریزی ہمارے پورے سسٹم کو اندھا بہرا بنا سکتی ہے اور آپ کی ویڈیوز پر اپنی مرضی کا لیبل لگا کر ایسا ویسا منجن بھی بک جاتا ہے۔ انکل سام آپ تو آپ ہیں ناں، ورنہ بھلا ایسا بھی کیا کہ وزیر تعلیم وعدہ کر کے ماضی کی طرح فراموش کر ڈالیں اور ہم محترم چیف جسٹس کے نام درخواست لکھیں اور سماعت ہی نہ ہو، ہم ارباب اختیار اور آرمی چیف سے بار بار عاجزانہ درخواست کرتے رہیں کہ ہمارا نقطہ نظر تو سن لیں لیکن یہ صدائیں بے حسی کے گنبد میں تیرتی رہیں اور سب سننے سے انکاری رہیں۔
یہ تو ہمارے اپنے ہیں لیکن مرضی شاید آپ کی ہی چلتی ہے۔ انکل سام ایک بات تو ہے۔ آپ کی زبان کی داد نہ دینا بے انصافی ہو گی اتنا میٹھا لہجہ۔ ہمارے ہاں تو زبان کے الگ ہی مسئلے ہیں۔ حکومت تو زبان سے پھر کر بھی صادق ہی رہتی ہے۔ نئی نسل نےزبان کے ہی کرشمے دیکھے۔ اقتدار میں داخلہ کے وقت صاحبان ہاتھ سے نہیں زبان کے زور سے دروازہ کھولنے ہیں گویا آتے ہوئے زبان ساتھ لے کر آتے ہیں اور جاتے ہوئے بھی زبان کو ہمراہ لیے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں " نو تبدیلی" انکل سام موجودہ آئین میں تو زبان اخلاقی نہیں، صرف لسانی مسئلہ ہے۔ اس لیے سوشل میڈیائی پروپیگنڈہ نمبرز اپنی اپنی زبان کے ایسے گل کھلاتے ہیں کہ گندی زبان کی وجہ سے ایک دھند چھائی ہوئی ہے کچھ دل تک اترتا ہی نہیں۔ مارا ماری میں ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ اس لیے آپ پہ الزام ہے کہ آپ نے خط لکھا اور پکڑے گئے۔ کیا لکھا؟
اس سے ہمیں کیا! کسی کو چاند پہ بڑھیا، کسی کو روٹیاں، کسی کو پری اور کسی کو داغ بھی نظر آتے ہیں سو ہم تھوکتے رہیں گے۔