Sher Aya Sher Aya
شعر آیا شعر آیا
جاک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی کو جس دریا کا سامنا تھا عہدحاضر میں اس کی عملی وضاحت ڈاکٹر عمران ظفر نے "کرونا مرے آگے" اور " شعر آیا شعرآیا " کی صورت پیش کی ہے۔ ویسے تو کرونا سے کتے والی کاف نکال دی جائے تو باقی صرف رونا ہی بچتا ہے۔ جی ہاں وہی رونا جس کے متعلق میر نے کہا ہے۔
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
یہ رونا دھونا ازل سے ہی کہیں گھر اور کہیں دل کا مسئلہ رہا ہے۔ سو اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ اصل خرابی کی جڑ یہ کتے والی کاف ہی ہے۔ جس کی دم سو سال نالی میں رکھ کر سیدھی نہ ہو سکی۔ عمران ظفر نے ایسے ہی ٹیڑھے رویوں کو موضوع بنایا ہے۔ بخار زدہ عشق کو خصوصی ہدایت ہے کہ وہ حسن کو بیمار نہ کرے۔
خوف سے تو بھی ہے بیٹھا جو گریزاں مجھ سے
میں بھی چھے فٹ پہ کھڑا ہوں ترے کس کام کا ہوں
عمران ظفر نے انفرادی و اجتماعی رویوں کو جانچا نہیں بلکہ چھانا ہے۔ گھر میں بیٹھ کر اس دشت نوردی نے انھیں مجنوں نہیں بنایا، ناقد دشت گر بنا دیا ہے۔ ان کی نگاہ دور رس ہے سو بے شمار متنوع موضوعات کو چٹ پٹا بنا کر پیش کیا ہے۔ ان کی نظر آبادی بڑھنے پر ہی نہیں پیشہ وروں کی فراوانی بھی انھیں کھولاتی ہے۔
اب حکیم اور ڈاکٹر اتنے ہوئے ہیں دیس میں
ہر گلی کے موڑ پر بیٹھا ہوا ہے چارہ گر
مزاح اور پھکڑ پن میں وہ نازک لکیر جو پل صراط سے کم نہیں عمران ظفر نے اس امتیاز دانش کو بخوبی نبھایا ہے
مفتی شہر آپ سے مجھ کو
پوچھنا ہے بہت ہی عام سوال
محکمہ واپڈا کو روزے میں
گالی دینا حرام ہے کہ حلال
انکل سام نثر و نظم کا مشترکہ موضوع رہا ہے۔ طاقت کےاس منبع نے معاشرتی تفہیم کو صد لخت کر کے رکھ دیا ہے۔ نو آبادیاتی نظام نے اقدار کو جس طرح ملیا میٹ کیا ہے اس کی مثال " سو درے، سو پیاز " ہی ادا کر سکتے ہیں۔
تم اپنا فائدہ پیش نظر رکھتے ہو چاچا جی
تمہاری حکمت عملی سے دل نہ بد گماں کیوں ہو
تمہاری دوستی خطرے سے خالی ہو نہیں سکتی
"ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو"
ادارہ جاتی تحقیق کا رونا سب ہی روتے ہیں لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بلیوں کے لیے دروازہ بھی کھلا ہے لیکن اس نتیجہ میں سوچ و فکر کی مطابقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ تخلیقی اپچ بنجر پن کا شکار ہو چکی ہے۔ "ماہر حبیب جالب" میں عمران ظفر نے گویا نتیجہ کا اعلان کر دیا ہے
بس ایک مقطعء جالب ملاحظہ کیجیے
کہ جس میں ہیں وہ ستاروں کی گفتگو کرتے
"مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے"
بے روزگاری اور بے کاری کی گھٹن میں نا امید نوجوانوں کو سیاسی کرتب سازوں کے تتبع کا مشورہ خوب اور مبنی بر حقیقت ہے۔
نوکریوں میں کیا رکھا ہے لیڈر بن کر قوم کو لوٹ
قرضے معاف کرا لے پیارے لسی پی اور جان بنا
دوست ناصح بن کر دشمن لگنے لگتے ہیں تو لیڈران کو شاعر کرتب ساز بھی نہیں سمجھتا
کبھی وعدہ پورا کرتے، کبھی عہد بھی نبھاتے
ہمیں اپنے رہبروں پر بڑا اعتبار ہوتا
یہ کہاں کی ہے سیاست کہ بنے ہیں سارے لیڈر
"کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا "
اومنی بس کو اوزار مساوات، چرسی اور نشئی حضرات کی جنوں خیزی، مچھلی کے بعد گرم دودھ کو گورا ہونے کا نسخہ، روایتی طریق تفتیش کو بے وزن و بے سری گلوگاری کو مزاح کم طنز کے وار سے اجاگر کیا ہے۔ خاص طور پر میڈیا کی دگرگوں صورت حال اور خرابیء زبان کے نتیجہ میں جو بعد پیدا ہوا ہے اسے بڑی خوب صورتی سے کرگس و شاہین کے دائروں میں مقید کر دیا ہے۔ انصاف کی وہ شاہراہ جو ہر خاص و عام کو ٹوٹی پھوٹی دکھائی دیتی ہے لیکن ہم سب اسی راستے کے پتھر بن کر ٹھوکروں کی زر میں ہیں اور پکارے جا رہے ہیں یہاں اب کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا۔ شاعر سمجھتا ہے کہ وہ لفظ جسے تقوی کہتے ہیں"خاصوں" کے لیے نہیں
ساٹھ سالوں سے یہ سنتے ہیں ملے گا انصاف
"ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہء معنی نہ ہوا "
عمران ظفر کی پیروڈی کاتا اور لے بھاگا کی تصویر نہیں۔ اس دوا کی طرح ہے جو مریضان جاں بلب کے لیے ہے۔ انھوں نے ہر بیماری کے لیے سٹیرلائزڈ کا استعمال نہیں کیا۔ جو مصرع جہاں آنا تھا، وہیں موجود ہے۔ اس کی واحد ان کا استاد ہونا اور علی الاعلان ڈاکٹرطارق ہاشمی کو گرو تسلیم کرنا ہے جس کا اعتراف "شعر آیا شعر آیا" کےآغاز میں وہ کر چکے ہیں۔ عمران ظفر کا منفرد اسلوب ان کی شناخت ہے اور شعری مزاح میں عمدہ اضافہ ہے۔ دعا ہے ان کی سخن فہمی میں اضافہ ہو اور عمران ظفر پیران سخن ور سے منسلک رہیں۔