Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Sawal O Jawab Ki Uljhan

Sawal O Jawab Ki Uljhan

سوال و جواب کی الجھن

سوال زندگی اور علم دونوں کی بنیاد ہے۔ ہر تحقیق کسی سوال سے شروع ہوتی ہے اور جواب کی صورت پھیلتی چلی جاتی ہے۔ تحقیقی سوالات میں سقراط کا انداز تعلیم، ذہانت وتخلیق کی چابی مانا جاتا ہے۔ اس میں بیانیہ، متعلقہ اور عمومی سوال شامل ہیں۔ علم حاصل کرنے کیلئے کیا، کا سوال اٹھایا جاتا ہے۔ پھر اطلاق کیلئے کیسے؟ تجزیئے کیلئے کونسے؟ نتیجے کیلئے کیوں کر؟ کے سوالات زندگی کا لا متناہی فلسفہ ہے۔ ہم تو فلسفی بھی نہیں پھر بھی ڈور سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سوالات کی کنجی سے کوئی تالا نہیں کھلتا کیونکہ عوام اور حکمران تو ایک طرف۔ حکومتی ایوان بھی کسی مسئلے پر متفق نظر نہیں آتے گویا، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔

ارسطو کا کہنا ہے کہ ہم اچھائی سے زیادہ اچھے انسان کے خوگر ہوتے ہیں، وگرنہ ہمارے تمام سوالات بے معنی ہوتے ہیں۔ انسان کی دانشورانہ تاریخ میں نیکی وصداقت اوردنیا کو خوبصورت اور مساواتی نظام کی تگ و دو بنانےکے لئے آفاقی سوالات کی جستجو ہمارے سوالیہ ذہن کی مرہون منت ہے۔ نامعلوم سے معلوم کا سفر سوال سے شروع ہو کر سوال پر ہی اختتام پذیر ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ فلسفہ و مذہب اورسائنس و ادب کے عظیم سوالا ت سے ہی تعبیر ہے، جن کے جوابات سے آج ہم ڈیجیٹل دور میں باشعور زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کائنات کی نا تمامی اور صدائے دما دم کن فیکون اسی لیے جاری و ساری ہے کہ سوال و جواب باقی ہیں۔

کئی بار جن رویوں اور رسوم کو عمومی سمجھ کر بحث سے اجتباب کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے بعد وہ ایک سنگین سوال کی صورت ابھرتے ہیں۔ اگرچہ یہ سوالات اجتماعی معاشرت کی طرف سے ہیں تاہم ان کے جوابات انفرادی قربانی مانگتے ہیں جن کے لاشے ہر لمحہ کبھی خبر اور سوشل میڈیا پر popular now کی صورت جگماتے ہیں اور کئی گھر اور بہت سے دل تاریک کر جاتے ہیں۔ کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن کی تکرار ان کی اہمیت ہی ختم کر دیتی ہے اور جواب کی حاجت ہی نہیں رہتی۔

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

ہمارے ہاں عدالتی نظام کے تحت ایسے سوال زندگیاں ختم ہونے پر بھی جاری رہتے ہیں اور آئی۔ ایم۔ ایف کے قرض کی طرح ان کے جواب اگلی کئی نسلوں پر فرض کیے جاتے ہیں۔ کئی سوالات کے جوابات میل ہی نہیں پاتے۔ مستقبل میں شاید ان کے لیے بھی DNA ٹیسٹ کی ضرورت پڑے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جن کی آزادی ابھی تک سوال ہیں ہمارا اد راہ سوالات کے تالے ہیں جن کی چابیاں نجانے کہاں دفن ہیں۔ آئین و قانون سوالات کا بپھرا ہوا دریا ہے جس کے سامنے جتنی بھی کمیٹیاں بنائی ٹک ٹاکر بن کر رہ جاتی ہیں۔ سوال گندم جواب چنا ۔

سوال حد سے زیادہ انارکی پر ہے اور جواب لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ہے۔ سوال حالیہ کرپشن کی دفاعی حکمت عملی پر کیا جائے تو جواب چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ سوال معاشرہ میں بڑھتی بے اطمینانی کا ہے اور جواب میں وزیراعظم کی ایمان داری کے قصے سنائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کیسے کی جائے اور جواب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ چینی صحت کے لیے مضر ہے۔ عوام کا سوال مہنگائی کا بے قابو جن پر ہے اور جواب میں اسے روٹی کم کھانے کی غیرت دلائی جاتی ہے۔ سوال مسئلہ کشمیر پر ہوتا ہے اور جواب میں کھانے کی میز پر گالیاں۔ عبد الحمید عدم نے کہا تھا۔۔

سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں

جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر

پورا معاشرہ صورت سوال ہے۔ کل تک حکومت جن سے سوال کر رہی تھی اب اپنے تحفظ کے لیے جواب ندارد۔ سوال اتنے پھیلا دیے گئے ہیں۔ کہ میگرین کے لیے غیر ملکی دورے ناگزیر ٹھہرے اور وہاں جو جواب سامنے آئے وہ بذات خود بہت خطرناک سوال ہے۔ ٹی۔ وی پروگرامز خاص طور پر you tubers کے سوال اس قدر بیہودہ اور لغو ہوتے ہیں مذہب سے متعلق سراسر مغالطے اور غلط فہمی پر مبنی سوال میں حلال حرام کا الگ سوال اٹھتا ہے۔ کچھ سوالات بذات خود فتوی بن جاتے ہیں۔ جن کے جواب سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔

حالانکہ حکم، امر یا اختیار صرف اولی الامر کے لئے مخصوص ہے۔ کچھ سوال بھکاری کے خالی کاسہ کی طرح در در بھٹکتے ہیں اور کچھ سوالات کی تلاش میں کمیٹیاں بٹھائی جاتی ہیں۔ یہ سوال TA-DA سے مشروط ہوتے ہیں حالانکہ ان کے جواب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ شرارتی بچے دسمبر کی چھٹیاں ملکی تاریخ میں اتنا بڑا مسئلہ نہیں بنیں جتنا کمیٹی در کمیٹی نے بنا دیا آخر عدالت کو حکومت سے ہی جواب طلب کرنا پڑا۔ جانے جواب میں کیا داستان سنائی جائے۔ پہلے ہی ہمارے پاس کتنے ہی سوالات فائلوں کی صورت سرخ فیتے سے لپٹے ہیں۔ کرشن چندر کے "جامن کا پیڑ " اور عکس مفتی کی سیڑھی کی طرح یہ سوال ادھر سے ادھر ٹرانسفر ہوتے رہیں گے۔

ان کے لیے کتابیں لکھی جائیں گی۔ ان پر پروگرام منعقد ہوں گے۔ جلسے، سیمینار، کانفرسز لیکن ان کے جواب نہیں کھلیں گے۔ لیاقت علی سے اے پی ایس کے جواب صرف ملی نغمے ہیں۔ ہر سانحہ کا جواب خزانے پر بیٹھا سانپ ہی جانتا ہے ہمارے لیے سوال کا اطمینان ہی خزانہ ہے۔ وزیراعظم صاحب ہر پاکستانی کے ہاتھ میں آپ کے وعدوں سے متعلق کچھ سوال ہیں۔ ملک میں بے یقینی بد اعتمادی ناچ رہی ہے اور آپ مغربی معاشرتکے impact کی فکر ہے۔ ویسے کیا آپ کا سوال کرنا بنتا ہے؟ کیا آپ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں۔

نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے

کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat