Pappu Aur Mic Ki Muhabbat
پپو اور مائیک کی محبت
مائیک سے پپو کو بچپن سے ہی گہری محبت تھی۔ وہ مائیک ہاتھ میں لے کر سارا دن پوں پوں کرتا رہتا۔ کبھی گانے گاتا، کبھی چیختا چلاتا اور کبھی مائیک کو چومنے لگتا۔ اپنی آواز کی ترسیل کا اس سے بہتر ذریعہ وہ زندگی بھر نہیں سوچ سکتا تھا۔ جونہی اس کے ہاتھ میں مائیک آتا اس کی آواز بدل جاتی وہ اپنی آواز میں کھنک پیدا کرنے کی کوشش کرتا، ایسی کھنک جس میں خمار اور مصنوعی پن کا تڑکا ہوتا۔
پپو خود ہی بولتا اور پھر شرما جاتا۔ اسے لگتا ساری دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔ یہ احساس بڑھنے لگا تو احساس برتری کی خطرناک صورت میں ڈھل گیا۔ وہی احساس برتری جو غرور و تکبر، انانیت، خود ستائی اور ایسی ہی صفات کا مرکب ہے اور کسی بھی شخص کو اس کے دل و دماغ دنیا و ما فیہا سے بلندی اور بر تری کا احساس ڈال سکتا ہے۔ جوں جوں پپو کا مائیک پر اعتماد بڑھنے لگا، اس کی گونج بھی بڑھتی گئی۔
اس نے مائیک پر اپنی آواز کی مدد سے پہاڑ کھڑے کرنا شروع کیے۔ ایسے پہاڑ جو اس کی سوچ کی اختراع تھے۔ جب بھی کوئی ان تک پہنچنے کی کوشش کرتا اسے روکنے اور پسپا کرنے کے لیے ہر طرف پتھر ہی پتھر اڑنے لگے۔ یہ پتھر ادھر ادھر لگتے اور کسی کا بھی کردار مسخ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
بہت سے معتبر لوگوں کو زخمی کرتے اور پپو کو بھی یقین ہونے لگتا کہ یہ پتھر ہی پہاڑ ہیں۔ یہ پتھر اتنے نوکیلے تھے کہ لوگ خوف کھانے لگے۔ پپو کی چیخ و پکار اور خمار بڑھتا گیا۔ اس کا اندر باہر سانپ کے پھن کی طرح جھومنے لگتا۔ گاوں گاوں پپو کی کرامات کے شعبدے پہنچنے لگے۔ کسی پہاڑ تک تو ان کی رسائی تھی نہیں سو وہ ہوا میں اڑتے پتھروں کو ہی پہاڑ سمجھتے گئے۔
جنوبی کوریا کے السن نیشنل انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر ہیون ہیوب اور دیگر ماہرین کی سننے اور بولنے سے معذور افراد کیلئے وضع کردہ ٹیکنالوجی پپو تک پہنچ چکی تھی۔ اس ٹیکنالوجی کو معمولی ردو بدل کیساتھ مختلف طبی آلات میں بھی استعمال کیا جاسکتا تھا اور یہ آواز کی لہروں کو باقاعدہ اور قابلِ فہم "صدا" میں تبدیل کر کے آواز کے ان پٹ اور آؤٹ پٹ آلات میں بھی ڈھال سکتی ہے۔
سو آواز کے ساتھ پتھر باندھے گئے جو نشانہ طے کر کے لوگوں کے سر، منہ دماغ، دل مفلوج اور زخمی کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ ایسے لاؤڈ سپیکر اور مائیکروفون دنیا بھر میں پھیلائے گئے جو باریک ہونے کے باوجود آواز کے سگنل خارج کرتے اور فہم و تدبر سے محروم رہتے۔ پپو کی ایک چیخ تھی جس سے سینکڑوں مفہوم اخذ کیے گئے۔ اس ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھایا گیا جو جلد کو سپیکر اور مائیک میں بدل سکتی ہے۔
بہت سے علمائے سو روتے دھوتے پپو کے لیے دعائیں کرتے۔ انھیں اپنی دعاؤں سے بڑھ کر پپو کے پتھروں پر اعتماد تھا۔ لوگ اس کے الفاظ کو صحیفہ سمجھتے اور یوں یہ سب ان پتھروں سے محفوظ رہتے جو سوال کرنے والوں کے منہ پر مارے جاتے۔ کوئی بتاتا کہ پہاڑ کتنا بڑا ہے۔ کوئی بتاتا پہاڑ اڑتا بھی ہے، کسی کو اس پہاڑ سے رنگ برنگی روشنیاں پھوٹتی دکھائی پڑتیں۔ البتہ یہ طے تھا کہ یہ پہاڑ "کوہ ندا" نہیں تھا۔
پپو کے گاوں میں اب سوال ختم ہو چکے تھے صرف جواب تھے جو اڑتے پھرتے تھے۔ کئی بار تو پپو کے ہاتھ میں موجود مائیک ہتھیار کا کام کرتا جو وہ سوال کرنے والے کوچپ کروانے کے لیے اس کے منہ پر دے مارتا۔ پپو سقراط بننے سے ڈرتا تھا وہ چاہتا تھا کہ بس وہ بولتا رہے اور لوگ سنتے رہیں۔ لوگ تو سیل sale کا لفظ سنتے ہی دوڑ لگا دیتے ہیں۔ کہیں دم کروانے والے بابا جی کا علم ہو تو بھی جتھوں کے جتھے منہ اندھیرے ڈیرہ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر یہ تو پپو تھا۔
آخر ایک دن پپو تک سوال پہنچ ہی گیا۔ ایک لمحہ کو تو پپو گڑبڑایا۔ اپنے تئیں وہ سوال کو دفن کر چکا تھا۔ پھر یہ کیسے اس کے سامنے سر اٹھائے کھڑا تھا۔ سوال سر اٹھائے پپو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جواب کا منتظر تھا۔ جواب ہوتا تو آتا۔ جواب میں تو صرف پتھر تھے اور یہ سوال پتھر کھا کر بھی ڈٹا کھڑا تھا۔
سمے کی ناؤ میں سوال ڈوبا نہیں تھا نہ ڈوب سکتا تھا۔ پپو کے مائیک میں ایک پوں پوں کے سوا کچھ نہ تھا سو سوال کا چہرہ چمکنے لگا۔ سوال کے سامنے جواب کے پتھروں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ فطرت کے سمندر میں ازل سے جواب کے کتنے ہی پتھر تہہ میں غرق ہو چکے ہیں لیکن سوال کی چمک ماند نہیں پڑی۔
سوال نے کبھی بھی ننگے بادشاہ کو کپڑے نہیں پہنائے۔ یہ سوال ہی ہے جو بادشاہ کے ننگے پن کو عیاں کرتا ہے۔ سوال میں عریانی نہیں لیکن ذہنی عریانی پر، یہ سوال ہی ہے جو ہر دور میں یہ سطحی پن دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سو ازل سے پپو سوال سے منہ چھپائے پناہ کی تلاش میں اپنے گرد بھیڑ سے تقویت لیتا ہے اور اسی بھیڑ سے اٹھنے والا سوال اسے بھسم کر دیتا ہے۔ آج کے پپو کے لیے بھی یہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ بقول عبد الحمید عدم
سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر