Online Jihad
آن لائن جہاد
چنو کو اپنے مجاہد ہونے پر فخر تھا البتہ یہ طے ہے کہ اسے جنگ، جہاد، قید و سلاسل یا بیت المال کے معنی تک معلوم نہ تھے۔ اسے زعم تھا کہ اس کے پاس قدم جمانے کی زمین ہو نہ ہو آسمان لا محدود ہے۔ ویسے اسے زمین اور قبضہ گروپوں سے بے پناہ محبت تھی اور اس کا اظہار اس نے متعدد بار آن لائن اور آف لائن میٹنگز میں کیا تھا۔ سو اب وہ کبھی چاند پہ تھوکتا اور کبھی سورج کو چراغ دکھاتا لیکن ہنس ہنس کر یہ بھی گنگناتا رہتا کہ
"لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ"
چنو ہر قیدی کو "کیدو" سمجھتا تھا۔ وہی حاسد کیدو جس نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا تھا اور ہیر کو مردہ دیکھ کر رانجھے نے بھی زہریلا لڈو کھا کر خودکشی کر لی تھی۔ اس داستانوی منظر نے چنو کے لیے جہاد کے تمام ضابطے و قوانین بدل کر رکھ دیے۔ ویسے بھی اسے کون سا اسے کوئی قانون ازبر تھا۔ یہ سب دل رکھنے کی باتیں تھیں اور اس محاورہ کو سن کر چنو کہتا تھا کہ اس کا دل ہے جہاں مرضی چاہے رکھ دے۔
آن لائن مجاہد کا ٹیگ لگا کر اس نے تحقیق سے استثنیٰ حاصل کر لیا تھا۔ کوئی مائی کا لال اسے سوال و جواب کے چنگل میں نہیں لا سکتا تھا۔ وہ جواب کا دھاگا توڑ سوال کرنے والے کو اسی سوال سے باندھ دیتا۔ اسے وہی لوگ پسند تھے جو اسے سوال کی بھینٹ دیا کرتے تھے۔ اس نے کبھی وہ طشتریاں بھی واپس نہ کی تھیں جن میں سوالات سجا کر بھینٹ کیے جاتے۔ ان طشتریوں کو چنو نے اڑن طشتری سے مماثلت دی تھی۔ اب ان پر مضامین لکھے جا رہے تھے۔
چنو کی مصروفیت کا عالم نرالا تھا۔ کبھی تو وہ کہتا کہ چیونٹیوں کی لائن اس نے سیدھی کروائی ہے اور کبھی پانی پنسال میں پہنچانے کا کریڈٹ وصول کرتا۔ من پسند مناظر کی تخلیق میں مگن چنو تحقیق سے سخت نفرت کرتا۔ وہ دن بھر آن لائن چہرے تراشتا اور انھیں ادھر ادھر نصب کرتا۔ اس کی مثال وہ ادھر ڈوبنے اور ادھر نکلنے سے دیا کرتا۔ چنو کو دوست، دشمن کی تخلیق سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ وہ ٹیگ لگا کر دوستوں اور دشمنوں کو لڑواتا۔
یہ سب ایک بٹن دبانے کی دوری پہ تھا اور چنو رچرڈ میتھسن کی کہانی button button کا بٹن سمجھ کر پہیلیاں گھڑتا رہتا۔ چنو کو لگتا سپہ سالار سے لے کر سپاہی اور قاصد تک اس کے اختیار میں ہیں۔ آخر اسے بٹن پہ ہاتھ رکھنے کا قصد ہی تو کرنا پڑتا تھا۔ پھر چراغوں میں روشنی رہتی یا بجھ جاتی، نتائج کی کسے پروا تھی۔ وہ جو تصویر چاہتا اس میں رنگ بھر دیتا۔ اس کی انگلیاں دن رات کی تفریق کیے بنا کی بورڈ پر تھرکتی رہتی۔
اگرچہ چنو نے اپنے آپ کو آن لائن مجاہد ڈیکلئر نہیں کروایا تھا تاہم وہ خود کو آن لائن مجاہد ہی کہتا اور لکھتا تھا۔ لائن سیدھی یا ٹیڑھی ہونے سے اسے کوئی خاص فرق نہ پڑتا تھا۔ تسلی دل کی خاطر یہ کافی تھا کہ وہ دن رات لائن پر تھا۔ اب تو اس نے اپنے لیے ایک مہر بھی بنوا لی تھی جسے وہ اکثر چھپا کر رکھتا اور وقت پڑنے پر اس کے ذریعہ نیلے، پیلے، کالے، ہرے فتوے جاری کرتا۔
آن لائن جہاد کا فائدہ یہ بھی تھا کہ جب بھی چنو کی آنکھ کھلتی وہ فائر داغ سکتا تھا۔ ایسا ہی ہوتا آنکھ کھلتے ہی وہ دشمن کی تصاویر کو بلاک کر کے block = halack لکھتا اور پھر سے "آنکھ لگا لیتا"۔ رات دن کی تمیز کیے بنا یہ جہاد جاری تھا۔ جب سے چنو کو خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے ذریعہ علم ہوا کہ ایلون مسک نے ٹوئٹر خرید لیا ہے اور اس نے چیف ایگزیکٹو پراگ اگروال، چیف فنانشل آفیسر نیڈ سیگل اور قانونی مشیر اور پالیسی چیف وجئے گڈے کو اپنے عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔
چنو کے دل میں ٹھنڈ پڑ گئی۔ وہ ناچ ناچ کر بے حال ہو رہا تھا۔ اس نے یہ خبر بھی پھیلا دی تھی کہ آن لائن جہاد میں دشمنوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور یہ اس کی دانش مندانہ تدابیر کا کرشمہ کہ کفار کے ہاتھوں دشمن کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ازمنہ قدیم کی تمام تر دشمنیوں کو اس نے سمندر سے نکال کر مارا تھا۔ انڈین اداکاروں اور ہیروئنوں کو چھوڑ کر چنو کو ہندوؤں اور انگریزوں سے سخت نفرت تھی۔
فلموں میں آئیٹم سونگ پہ ٹھمکے لگاتی ہیروئن سے چنو کو البتہ خصوصی محبت تھی۔ اسے ان سے خاص اپنے پن کا احساس ہوتا۔ ان ہندو اور کافر فینز کی بڑی تعداد اس کو اپنی مفتوح فوج معلوم ہوتی۔ چنو کو یقین تھا کہ گھر کے دوسرے کمرے تک جانے سے پہلے اس کا جہاد مشرق و مغرب کی سلطنتیں تسخیر کرتا آسمان کی وسعتوں تک پھیل رہا ہے۔ ان کافروں کی ایسی کی تیسی۔ چنو اپنے آن لائن ایمان کی سلامتی کے لیے ہر ممکنہ حد تک جا سکتا تھا۔ کون یہ کہہ سکتا تھا؟
میں بھی ہوں محوِ تغافل، تو بھی ہے غفلت گزیں
میرے خوابوں سے کہاں بہتر ہیں تیرے سبز باغ
رات اک شب خون میں گزری مگر شاباش ہے
دیکھنے والوں نے دیکھے منہ اندھیرے سبز باغ
اس کے دفاعی مورچوں پر بھی فوجیں براجمان تھیں۔ دور جدید میں انسٹا گرام، ٹویٹر، linkdin اور فیس بکی افواج شتر سوار، گھڑ سوار اور آہنی خود کے ساتھ زرہ بکتر زیب تن کیے دستوں کی جگہ لے چکی تھیں۔ جو کسی دستور کو مانتی تھیں اور نہ ہی ماننے کی قائل تھیں۔ چنو نے تو قسم کھا کر عہد لے رکھا ہے اور پچاس روپے کا اسٹامپ پیپر بھی لکھوا رکھا ہے کہ وہ فلسطین اور کشمیر کو بھی آن لائن آزاد کروائے گا۔