Nanga Badshah Aur Phatte Kapre
ننگا بادشاہ اور پھٹے کپڑے
ننگے بادشاہ کی کہانی ڈینش زبان میں لکھی گئی لوک کہانی تھی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ دو فریبی جولاہوں نے بادشاہ کو ایک ایسا کپڑا بُن کر دیا جو صرف عقلمندوں کو نظر آتا تھا اور احمق اسے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ چونکہ کوئی بھی یہ ظاہر نہیں کرنا چاہت تھا کہ وہ بے وقوف ہے اس لیے کسی نے بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ اسے یہ کپڑے نظر نہیں آ رہے۔ ان میں بادشاہ خود بھی شامل تھا اور اس کے سارے درباری بھی تھے۔
جب جی حضوری کرتے ہجوم میں لوگ بادشاہ کے لباس کی تعریف میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے کوشاں تھے، ایک چھوٹے بچے نے عین جلوس میں کہہ دیا کہ بادشاہ ننگا ہے جس سے پورے مجمع کو زبان مل گئی۔ ایسی کہانیاں مغربی ممالک میں خوب توجہ کھینچتی ہیں جہاں ذرا سی غیر ذمہ داری اور اخلاقی کم زوری کے نتیجہ میں استعفے کا رواج ہے۔ ہماری کہانیوں میں ہر ادارے کا بادشاہ ننگا ہے اور دور جدید میں وہ اداروں کے کپڑےاتارتا ہے۔
انقلاب اور تبدیلی کی خواہش نے ہزاروں خواہشات کی طرح دم نہیں توڑا بلکہ جو بھی بادشاہ کے ننگے پن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کی انگلیاں کاٹ کر اس کا شمار ذہنی معذوران میں ہوتا ہے۔ ہمیں تو دوستی کے پھل جیسی لوک کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں۔ جس میں شکاری کے خوف سے بچنے اور فائدے کے لیے سانپ اور گدھ تک سے دوستی کا سبق ملتا ہے۔ شکاری بھی شاید کوئی انقلابی ہی تھا۔ نیا پاکستان بنانے کے لیے جس کی نظر کبوتر کے بچوں پر ٹھہری۔ جس سے اس کا منہ بھی گیلا نہ ہوتا، اس پہ عقل داڑھ کے بھی لالے پڑ گئے۔ اسے جنگل میں بھیج کر جولاہے ننگے بادشاہ کو پھر سے کپڑے پہنانے پہ جت گئے۔
سنا ہے پشاور باڑے میں لاٹ کا مال آتا ہے اور کپڑوں کی تنگی نہیں۔ ہمارے ہاں تو جولاہے سٹیکر کی طرح کپڑے چپکاتے ہیں۔ جولاہے ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس بادشاہ کو کس وقت ننگا کرنا ہے اور کب کپڑے پہنانا ہیں۔ عوام بے چاری کو تو اپنے کپڑوں کے لالے پڑے ہیں۔ سر ڈھانپنے کی کوشش میں پاؤں کھل جاتے ہیں۔ بہت سے موقع شناس جولاہے سوشل میڈیا پر بھی داد رسی کی ذمہ داری سنبھالے ہیں۔ جونہی کسی بڑی شخصیت کا سکینڈل منظر عام پر آتا ہے یا بد عنوانی کا کوئی الزام لگتا ہے۔
چھوٹے بڑے سب جولاہے پمپر پکڑ کر دوڑ لگا دیتے ہیں اور روز قیامت سے پہلے بڑی شخصیات کی گٹھڑی سمیٹ کر ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔ کئی جولاہے تو ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کے کپڑے اتار کر بادشاہ کو پہنانے کی تصاویر جاری کرتے ہیں۔ بادشاہ البتہ بچوں کی اترن اور بھوک پہننے کی تصاویر نہیں اترواتے۔ اسے وہ سخت فیصلوں کا نام دیتے ہیں۔ یقین واثق ہے کہ قیامت کے دن یہ جولاہے بڑی شخصیات کو پہچاننے سے انکاری رہیں گے۔ جولاہے اور بادشاہ کی خوب بنتی ہے۔
بادشاہ کا ننگا پن ڈھانپنے کا عمل دو رویہ ٹریفک کی طرح ہی دو طرفہ ہے۔ جواب میں ان جولاہان کو بھی چغوں سے نوازا جاتا ہے جن میں کئی جولاہے تو اپنے ہی چغے اور زبان کے بوجھ سے گر پڑتے ہیں۔ خبر نہیں کہ روز حشر یہ خود سے کھڑے ہوں گے یا وہ شخصیات کھڑا رہنے میں ان کی مدد کریں گی۔ تاریک انصاف کے دور میں چھوٹے بڑے سب جولاہوں نے ایسے سخت فیصلوں میں حصہ ڈالا جس کا ان کے پاس جواب تک نہ تھا نہ ہی بات سننا روا رکھا گیا۔
وزیر تعلیم تک اپنی بات سے مکر گئے۔ دیگر فیصلہ ساز تبدیلی کی بھنگ کے زیر اثر تھے۔ تمام سرکاری ملازمین کی طرح اساتذہ کی بھی خوب تحقیر ہوئی۔ ارباب اختیار کے لیے ظاہر ہے، کہ جب جولاہے کپڑے پہنا رہے ہوں تو ان کو نہ اپنی عزت کا احساس رہتا ہے، نہ زبان کا پاس۔ دوسروں کے اشکوں کی لالی کو ہرا کہنے والوں کی چیخیں پشاور سے بھی سنائی دے رہی ہیں۔ اساتذہ کے تحقیقی پروجیکٹ گئے۔ ان کی قابلیت مشکوک بنائی گئی اور اس کے پیچھے وہ نا اہلی چھپائی گئی جو پی ایچ۔ ڈی کو ایم اے اور سائنس کو آرٹ ثابت کرتی ہے اور صرف بادشاہ کے ننگے پن کو نہیں چھپاتی۔
اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار جولاہے چہرہ تک بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مصر ہیں کہ بندر شیرکا لبادہ پہن کر سر پہ تاج رکھے اور چیتا بلی کا لبادہ اوڑھ کر سات گھر پھرے تا کہ اس کی غیرت اور چستی کو زائل کیس جا سکے۔ یہ وائرس شاید ہر محکمہ میں موجود ہے جہاں آوٹ آف ٹرن پروموشن بھی دی جاتی ہے اور نمبر بدل بدل کر مہرے آگے پیچھے کھڑے کیے جاتے ہیں۔
کچھ پوت تو پالنے میں ہی بزرگوں کے کپڑوں سے اپنا ننگ ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ ان بزرگوں کے متعلق پتہ نہیں کیا کہا گیا ہے جو تاج و کرسی کے ساتھ بھی اپنا ننگا پن نہیں چھپا سکتے اور نوجوانوں سے درخواست گزار ہیں کہ ان کو کپڑے پہناتے رہیں سو جولاہے دھڑا دھڑ کپڑے بن رہے ہیں جو ننگے انصاف سے قطع نظر بے انصافی کے گھاؤ میں بھرے جائیں گے۔ انصاف تو ہے ہی اندھا، اسے اپنے ننگے پن کا کیا احساس۔ اسے بس ننگے بادشاہ کو صادق اور امین کے کپڑے پہنانے پر مامور کیا گیا ہے۔
رہ گئی عوام! تو اس کی مثال اس کلاؤن کی سی ہے جو ہنسی کے غلاف تلے اپنا چہرہ اور نام تک بھول چکا ہوتا ہے۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ اپنے کپڑے کب اتارنا اور کب پہننا ہیں۔ بس ہجر و وصل کی تماثیل تراشنے پہ مامور ہیں۔ مریم نواز شریف نے کسٹم کی بد نیتی پر تو نوٹس لے لیا۔
جلسوں کے کھیل میں اساتذہ کی حالت زار پر ان کی نظر کب پڑے گی یہ پیشین گوئی نہیں کی جس سکتی لیکن اساتذہ اس کالے قانون اور تاریک انصاف کے دور میں ہوئی افسران کی اپنی کرپشن اور اپنے خلاف ہونے والی انکوائری کے جواز میں اس ظلم کے سنوائی کے منتظر رہیں گے۔