Mojuda Hukumat Aur Taleemi Nizam
موجودہ حکومت اور تعلیمی نظام
مکالمہ کسی بھی معاشرت میں تہذیبی حُسن اور توازن کی علامت ہے، اور ظاہر ہے مکالمہ کا جواز دو طرفہ فریقین کے تحفظات، دلائل اور اختلافی نکات پر مبنی ہوتا ہے ۔" آپ خیریت سے ہو اور اس حکومت میں آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہے اور نہ ہو گا ۔" مکالمہ نہیں، تسلی و اطمینان کی بے حسی ہے ۔اس پر ختمہ نہیں، سوالیہ نشان لگتا ہے ۔لیکن کتابی علم ہمارے معاشرے میں کیسے کام کرتا ہے، اس کا منظر سبز اشارے پر پیدل سڑک پار کرنے والوں کی عجلت سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ یہ عجلت اور فرار مسائل سے چشم پوشی تو ہو سکتی ہے ،لیکن حل نہیں ۔
آگے زبانِ یار کے خط کھینچے سب نے میر
پہلی جو بات اس کی کہیں تو کتاب ہو
پچھلے کچھ عرصہ میں ایک شور برپا تھا ،جس پر وزیر ِتعلیم، صمُُ بکمُُ کی تفسیر رہے ۔ آن لائن کیے وعدے پر بھی خط تنسیخ پھیر دیا ۔اساتذہ کے تحفظات سننا تو درکنار، ملاقات کا وقت تک نہ مل سکا ۔کتنے ہی وسیلوں سے کوشش کی، لیکن حتمی فیصلے میں دوسرے فریق کی درخواست ہر بار ردی کی ٹوکری میں جاتی رہی ۔ہم نے پرورش لوح و قلم تو کی، لیکن دل پر رقم درد اور مسائل ان سنے ہی رہے ۔اس کا تاوان ابھی تک اساتذہ بھگت رہے ہیں ۔پچھلی تنخواہوں کی ادائیگی مسئلہ بن چکی ہے ۔ آدھے سے زیادہ لوگوں کے ایڈجسمنٹ ،آرڈر ہی نہیں ہوئے ۔
یہ سفاک سچائی ہے کہ ہمارے ہاں حقیقی مسائل کو نظر انداز کرنا ہی وزارت کی کامیابی کا راز ہے ۔چلیے مان لیا کالجز کو یونیورسٹی کا درجہ دینا ،تختیاں لگانے کے لیے بہت ضروری تھا ،لیکن وہ درمیانی راستہ اور آپشن کیا کوئی ،جس کا وعدہ وزیر تعلیم نے ٹیلی ویژن پروگرام میں کیا تھا ۔کالجز کی حالت سدھارنے کا شوق ایک سفاکانہ فیصلے تک محدود تھا،جس میں نہایت سینئر اور دانش وروں تک کی رائے کو بھی در خور اختنا نہ سمجھا گیا ،صورت حال بس یہ ہے
احوال کی خرابی مری پہنچی اس سرے
اس پر بھی وہ کہے ہے ابھی ٹک خراب ہو
تصویر تو یہ ہے، کہ جس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ نہیں مل سکا اسے کوڑا گھر بنا دیا جائے ۔ پھولوں کی دکان کے پیچھے علاقہ کا کچرا پھینک کر یقین رکھا جائے کہ تعفن نہیں اٹھے گا ۔ شہر کے وسط میں گورنمٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین گلبرگ کی طویل دیوار اشہارات کے قابل بھی نہیں رہ گئی ۔ صبح شام ٹرالے وہاں علاقے کا کوڑا کرکٹ جمع کرنے پر مامور ہیں ۔ دیوار کے ساتھ سے گزرتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ کوئی خالی پلاٹ ہو گا ۔ کسی کالج کا گمان تک نہیں جاتا ۔ محکمہ تعلیم دن رات نوٹیفکیشن جاری کرنے میں اتنا مصروف ہے،کہ بارہا درخواست دینے پر بھی تا حال کرشن چندر کا "جامن کا پیڑ " بنا ہوا ہے ۔
بہت سے اساتذہ نے سوشل میڈیا پر عقبی دیوار کی کوڑا کرکٹ سے لدی تصاویر لگا کر ،ارباب اختیار کی توجہ چاہی ،اور جواب ندارد ۔سوشل میڈیا کی تمام تر طاقت بد زبانی اور الزام تراشی میں ہی جان ہلکان کیے ہوئے ہے ۔وزیراعظم کے سوشل میڈیا سیل کو مکالمہ سکھایا ہی نہیں گیا، کرتب سکھائے گئے ہیں ۔ اسی میڈیا سیل میں ،کاغذی تشہیر اور خشونت بھرے جھوٹ کی کتنی ہی مثالیں موجود ہیں ۔مسائل کا ادراک ان ٹک ٹاکرز کی اہلیت ہی نہیں ،اور پھر بے چارے سوچ سے محروم کرنے کے بعد ہی تو دن رات ترقی کا راگ الاپنے پر مصروف کار ہیں ۔
وہ کاغذی درخت کہاں رہ گئے ،جن کو تعلیمی اداروں کی دیواروں کے باہر لگائے جانا چاہیے تھا ۔کالج کا عملہ اتنا کم ہے کہ کالج کی اندرونی صفائی بھی بہت مشکل اور مشقت طلب ہے ۔اگر ڈائریکٹر کالجز میزوں پر ہاتھ پھیر کر گرد کی نشاندہی کرنا جانتے ہیں ،تو ان کی نظروں سے عقبی دیوار کیسے اوجھل رہ گئی ۔یہ تسلیم کیے بنا چارہ ہی نہیں ،کہ وزیر تعلیم اساتذہ کی بات سننا پسند نہیں کرتے،لیکن محکمہ صفائی اور لاہور کی خوب صورتی بڑھانے میں مشغول یاسر صاحب تو اس طرف توجہ کر سکتے ہیں ۔کالج کی عقبی دیوار کے باہر ایک فٹ تک جنگلہ لگا کر وہاں درخت اور پودے لگائے جائیں، تاکہ تعلیمی ادارے کی پہچان باعث فخر ہو سکے ۔
ان طالبات کے دل پر کیا گزرتی ہو گی، جب انھیں کہا جاتا ہو گا کہ اچھا! وہی کالج جس کے باہر کوڑا گھر ہے ۔ ان اساتذہ کے ذہن کیسے مطمئن رہ سکتے ہیں ،جن کی نظروں میں کوڑے کے ڈھیر اور ذہن میں یہ فکر ،کہ کہیں یہ دلدل کالج کی دیوار کے اندر سے راستہ بنا کر کلاس رومز تک نہ پہنچ جائے ۔وزیر تعلیم یاسر ہمایوں کے فیصلے کی دلدل ابھی سوکھی نہیں ہے ،یہ سچ ہے کہ تبدیلی کے نام پر ایک لہر نہیں سیلاب ہے ،جو کتنے ہی گھر اور چولہے بجھا کر بھی نہیں گزرا، ابھی سر پٹخ رہا ہے ۔نجانے اس کا تاوان آنے والی نسلیں کیسے چکائیں گی ۔
ہم نے ان بتوں سے امیدیں لگائی تھیں، جن کی تبدیلی کا معیار اس interior designer سا ہے جس نے گھر کے سب آئینوں کو کاربن پیپر سے ڈھانپ دیا ہو، اور معاشرے میں پھیلتے تعفن کو خوش بو تسلیم کروانے پر مصر ہو ۔خواب تھے ،وہ بھی ایسے ،کہ سر پکڑے بیٹھی عوام سوال کرنا بھی بھول گئی ۔الیکٹرک ووٹنگ مشین سے پہلے انھوں نے کے ۔پی ۔کے میں جو سیاہی لگائی ہے، وہ نوشتہء تقدیر ہے، کہ جہاں جہاں موقع ملا عوام کو طلاق میں دیر نہیں لگےگی ۔ کوئی ایک شق بھی تو نہیں جس پر کمپرومائز کیا جا سکے۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان تلوں میں تیل نہیں؟
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخہ عشق کا
کہ کتابِ عقل طاق پر جوں دھری تھی، تیوں دھری رہی