Mehboob Qadmon Mein
محبوب قدموں میں
مسئلہ صرف محبوب تھا اور دیوار پر چھپا اشتہار بیماری سے بڑھ کر علاج کا پرچار کر رہا تھا۔ چارہ یا دانہ کی صورت فون نمبر گزرنے والوں کو اپنی سمت بلا رہا تھا اور یقینی طور پر ممکنہ خوش خبری نہیں خوش خبریاں پیاسے کو کنویں کی صورت اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ "محبوب قدموں میں" کا تصور اتنا خوش آئیند تھا کہ چنوں نے فورا اپنے ڈرائیور کو گاڑی روک کر فون نمبر نوٹ کرنے کا حکم دیا۔
فون نمبر کے نیچے محبوب کے مچھلی کی طرح تڑپنے کی علامتی تصویر بھی بنائی گئی تھی۔ یہ تصور چنوں کے رگ و پے میں پھل جھڑیاں کھلا رہا تھا۔ چنوں کی باچھیں کھلی دیکھ کر ڈرائیور کو گمان گزرا کہ کہیں چنوں خود پر ہی خود کش حملہ نہ کر بیٹھے، لیکن اسے چنوں کی سیاست پر یقین تھا کہ وہ جان لے تو سکتا ہے۔ جان قربان کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔
اس سے پہلے چنوں نے دیواروں پر ہمیشہ مردانہ کم زوری کے اشتہارات ہی دیکھے تھے۔ "محبوب قدموں میں" کا اشتہار اس بات کا ثبوت تھا کہ اول الذکر مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ چنوں نے اسی شام بابا روگی سے ملنے کا اہتمام کیا اور موبائیل سے ڈاؤن لوڈ محبوب کی تصویر بابا جی دکھانا چاہی۔ بابا روگی نے جھپٹا مار کر اسے وہیں رکھ دیا جہاں سینکڑوں زنانہ، مردانہ تصاویر پردہ دری کے نیچے محو استراحت تھیں۔
بھاری رقم کے عوض معاملہ طے پایا۔ بابا روگی نے چند وظائف بھی پڑھنے کو دیے۔ چنوں نے کاغذ مٹھی میں بھینچ رکھا تھا، سو گھر جانے تک اس کے رنگ اڑ گئے۔ پھر بھی جیسے تیسے ساری رات وظیفہ کرتے اور محبوب کو تصورات میں قدموں تلے تڑپتے دیکھتے گزری۔ نیم خوابی کے عالم میں گھر کے باہر ایک ہجوم بے کراں پایا۔ آہ و زاری در و دیوار ہلا رہی تھی۔
ہر صوبے، ہر خطے، ہر طبقہ فکر کے لوگ اشکوں سے لبریز تڑپ رہے تھے، گویا پنچ آب کا پانی ابل پڑا ہو۔ چنوں کی تو گھگھی بندھ گئی۔ اس نے پوچھا " اے خلق خدا، مجھ سے کیا خطا ہوئی؟ علم ہوا وظیفہ حد سے زیادہ کامیاب ہوا ہے اور یہ سب بلکتی مخلوق " فوج محبوب" ہے۔ بابا روگی کی پھونک اور چنوں کے "کسرت وظائف" رنگ لائے اور دنیا بھر کے متاثرین قدموں میں آ پڑے۔
محبوب بھی تو دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کی پوری زندگی قدموں میں ہی گزرتی ہے۔ وہ جوتی چاٹتے بھی ہیں اور جوتیاں کھاتے بھی ہیں۔ قدموں میں لوٹتے پوٹتے یہ محبوب ایک قدم اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہتے، ان کا نام ہی رینگنے والے محبوب رکھا گیا ہے۔ اور دوسری قسم راج کرنے والے محبوب کی ہے، وہ عاشق و خادم بھی ہوں تو بھی ان کی محبوبیت کا عالم دو چند رہتا ہے۔
چنوں کے ذہن چال باز میں محبوب کی ازبر صورت دھندلا چکی تھی۔ وہ ایک ایک کی صورت پکڑ کر محبوب کی تلاش میں مگن تھا۔ خلق خدا کو دیکھ کر چنوں کا ذہن الجھ رہا تھا کہ صورت سے عاشق و گداگر لگنے والے محبوب کیسے ہو سکتے ہیں۔ وظیفہ میں کچھ تو گڑ بڑ ہوئی کہ کچھ لوگ حد سے سوا محبوب دکھائی پڑتے تھے اور کچھ علما بھی عاشقان دربار معلوم پڑتے تھے۔
ایک ہی صف میں محمود و ایاز، عجب رنگا رنگی تھی۔ ہاتھ میں کاسہ لیے بھی محبوب تھے اور سکے لٹانے والے بھی محبوب تھے۔ ملا بھی محبوب اور زاہد بھی محبوب، عالم بھی محبوب اور سالار بھی محبوب، افسر بھی محبوب اور سیاست دان بھی محبوب۔ عجب گورکھ دھندا تھا۔ استادی دکھانے والے تو تھے، استاد نہ تھا۔ اسے محبوبیت کے دائرہ سے باہر رکھا گیا تھا۔
یہ اسرار وظائف کی پھونکوں سے کھلا نہ ہی بابا روگی کی روحانیت اس گتھی کو سلجھا سکی۔ استاد کی تڑپ سوا تھی، لیکن حق محبوبیت سے محرومی چہ معنی؟ اور بھی عوام تھے، جو بن پانی کی مچھلی سے زیادہ تڑپ رہے تھے لیکن سفید پوشی کے ماسک لگائے سانس بحال رکھنے میں مشغول تھے۔ محبوبیت کی ہر ادا سے نا واقف گروہ تھا تو ارباب اختیار کے قدموں میں ہی، لیکن وہ محبوب کیسے ہو سکتے تھے۔
جن کی زندگیاں پھونکوں سے گل ہو جائیں، وہ چراغ روشنی آشنا کیسے ہو سکتے ہیں۔ محبوب کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والوں کے جسم بھوت بنگلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ چنوں جیسے لاابالی لوگ کبھی اصل ہیر اور تعویز گنڈا حاصل نہیں کرتے۔ ان کی قسمت میں اناڑی اور عطائی پیر لکھے ہوتے ہیں۔ جو اپنے ذاتی جن چھوڑ کر ان کی عقل کو مار دیتے ہیں سو انھیں قدموں میں بٹھانے کے لیے کسی وظیفہ یا شوں شوں کی ضرورت نہیں۔ یہ فتح یاب سالار کا ہارا ہوا لشکر ہے۔