Marna Hoga
مرنا ہو گا
تمہیں مرنا ہو گا! کیونکہ تمہارا سایا مجھ پر پڑ رہا تھا اور مجھے خود پر یہ داغ گوارا نہیں۔۔۔ تمہیں جلنا ہوگا! کیونکہ تم مجھ جیسے مسلمان نہیں لگتے۔۔ تمہیں گردن کٹوانا پڑے گی! کیونکہ تم سجدہ درست نہیں کرتے۔۔ تمہاری ٹانگیں کاٹنا ضروری ہے! کیونکہ میری بیساکھیاں نہیں بک رہیں۔۔۔ تمہارے بازو کاٹنا ہوں گے! کیونکہ تم نے مجھے گلے نہیں لگایا اگر تم مجھے گلے لگا لیتے تو میں آسانی سے خنجر گھونپ سکتا تھا۔۔۔ موت کی وحشت رقص میں ہے۔
یہاں چھوٹے سے چھوٹا عمل، نادانستہ غلطی، الفاظ کا ابہام سب کے دام بس موت چکاتی ہے۔ تمہارا مذہب کوئی بھی ہو، تمہاری عبادت گاہ کہیں بھی ہو۔ ہمیں اس سے مطلب ہی نہیں۔ تمہارا طویل سجدہ میرے ماتھا ٹیکنے کو چھوٹا کر دے گا اور مجھے گوارا ہی نہیں کہ تم مجھ سے آگے نکلو۔ اس کی قیمت تمہاری زندگی ہے۔ تمہیں مرنا ہی پڑے گا! آنکھوں پر ہاتھ رکھیں یا کان بند کر لیں۔۔ یہ مناظر فلم کی ریل کی طرح چلتے رہیں گے اور یہ آوازیں محبت کی ہر آواز کو مٹا دیں گی۔۔ خلوص و دیانت کا کوئی جواز کارگر نہیں ہو سکتا۔ مکالمہ کو ہم مانتے ہی نہیں۔ معطلی ہمارا وہ ہتھیار ہے جس کے جلو میں کارکردگی کو دیکھنا ضروری نہیں۔۔ جلسہ ہو یا ٹاک شو۔۔۔ پریس کانفرس ہو یا پھر بیانات کے سٹیکر۔۔ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا راگ ہر نا اہلی پر پردہ کی طرح ٹنگا نظر آئے گا۔
مخالفین کو دار پہ چڑھانے کی خواہش۔۔ انھیں ہجوم میں رسوا کرنے کی ویڈیوز۔ انھیں گندے القابات سے پکارنے کی تکرار اسی لیے کی جاتی ہے تا کہ وقت آنے پر ایک ہجوم اشارہ ملتے ہی ٹوٹ پڑے۔۔۔ غصہ مت کیجیے۔ طاقت مت دکھائیے حوصلے سے سنیے! یہ پانی پنسال کی طرف آ رہا ہے۔ یہ زہر ووٹر بڑھانے کے لیے انھیں مفلوج کر رہا ہے۔ تربیت پر قدغن اور رٹا سازی کی صنعت کو کیا کہیں۔۔
درخت لگانے کے لیے بیجوں کی کتنی ہی تھیلیاں تیار کی گئیں لیکن جہاں قحط زدہ تھر میں گندم کی بوری بھیجتے ہوئے آدھی مٹی اور پتھر بھرے جاتے ہیں اور ناپ تول کے لیے ترازو کے نیچے مقناطیس لگائے جاتے ہوں۔ وہاں بیجوں کی سپلائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ بوری بھرے بیجوں سے کچھ بیج سوشل میڈیا پر بوئے گئے اور انھیں ٹرینڈ trend کا پانی دے کر تصویروں کی صورت خوب پھیلایا گیا۔ نانی۔۔ چور خاندان لٹیرے کے ٹیگ مفت تقسیم کیے گئے اور بانٹنے والوں کے دامن بھرنے لگے۔ اس تشہیر میں ہر ذریعہ استعمال کیا گیا۔
سایا نوچ کر درختوں کی تصاویر جاری کی گئیں۔ یوں لگنے لگا جیسے بنجر شاہراہیں سوشل میڈیا پر قدم رکھتے ہی ہرے بھرے باغات میں ڈھل چکی ہوں۔ عوام ان اشجار کے سائے سے البتہ محروم ہی رہے۔ کچھ بیج نصاب میں بوئے گئے اور مذہب کو انفرادی کے بجائے ریاست کا معاملہ بنایا گیا۔ اسمبلی سے امتحان تک اقلیتوں کو یہ دکھانے کی بھر پور کوشش کی گئی کہ ہمارے ہاتھ میں مذہب کا لالی پوپ رنگین بھی ہے اور مٹھاس سے بھرا بھی لیکن ہم اسے مکھیاں جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوچ کی پرواز بلند کرنے کے لیے نہیں۔
بوری بھرے بیجوں کو بانٹنے کے لیے مساجد، مدرسوں اور جلسوں کا رخ کیا گیا اور کہیں بریانی کی پلیٹوں، کہیں ڈی جے بٹ کے راگ اور کہیں ہزار کے نوٹوں میں چھپا کر یہ بیج ملک کے طول و عرض میں پہنچائے گئے تاکہ ان سے پھوٹنے والے اشجار نسلوں پر سایا کرتے رہیں۔ اب یہ کانٹوں بھرے ببول گلی محلہ میں مختلف لوگوں کی جیبوں میں۔ موجود ہیں۔ کتنے ہی لوگوں نے ان پر مقناطیس بھی لگا رکھے ہیں تاکہ ایک ہی آواز پر مجمع اپنا جوش دکھانے کے لیے امنڈ آئے۔۔
ہمیں جلتی آگ کو بجھانے کے لیے تحمل اور دانش مندی کے بادلوں کی نہیں بلکہ ماچس کی ضرورت ہے جس کی تیلیاں ایک ایک کر کے آگ بھڑکاتی رہیں۔۔ جوش کو ریاست سپورٹ کرے گی۔ ہوش کی کسے خبر۔۔۔ اسی لیے بلند آوازیں۔ نعرے۔۔ چیخ پکار۔۔ ہاو ہو کی آوازیں ہمارے ہاں سنی بھی جاتی ہیں اور پھیلائی بھی۔۔
انفرادی مذہب کی حفاظت ریاست کے نوٹیفکیشن کریں گے البتہ ہجوم کے ہر عمل کا جواز جوش مذہب سے دیا جائے گا۔۔ پہلا پتھر ہو یا منہ سے نکلی پہلی بات۔۔ وہ اس ذہنی میلان کو عیاں کرتی ہے۔ جس کو چھپانے کے لیے کتنے بھی جواز گھڑے جائیں اور آئیں۔ بائیں شائیں کی جائے۔ اس کا زہر پھیل چکتا ہے۔ کوئی بھی پٹی جتنا بھی کس کر باندھی جائے اس زہر کو روک نہیں سکتی۔۔ سمجھ لیجیے کہ اب بات اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ سے آگے نکل آئی ہے۔
راگ اور ڈفلی بھی حکومت کی ہو گی۔ جوش خطابت کو ہنر کا درجہ دیا گیا ہے۔ اسی لیے خطبہ میں صرف فلائنگ کس ہی مخلوق خدا سے محبت کے دعوی دار ہوں گے۔ خواہش امن پر جوش والوں کا قبضہ ہے۔ ہوش والوں کی قطار چیونٹی کی قطار ہے جسے کوئی بھی روند سکتا ہے اور سانپ چیونٹی کے بل میں گھر بنائے بیٹھے ہیں۔ نقار خانے میں طوطی کی نہیں کووں کی حکومت ہے اور اصل مدعا یہ ہے کہ مجمع کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے بھی ایک گروہ کی ضرورت ہے جو یہ پتہ لگائے کہ دین قوم کی ضرورت ہے یا دین قوم کے بغیر کچھ نہیں۔