Lakeerain Hi Lakeerain
لکیریں ہی لکیریں
لکیر جسے لیک، ریکھا، دھاری، لائن یا خط کی شکل میں پڑنے والا نشان بھی کہتے ہیں۔ دیدہ و نادیدہ سانپ کی صورت انسانی زندگی میں سرسراتی رہتی ہیں۔ بھلے ہم لکیروں کے اثرات کو تسلیم کریں یا باطل سمجھیں۔ لکیریں ایک واضح حقیقت ہیں جو بزعم خود اپنے ہونے کا ثبوت ہیں۔
یہ لکیریں ہی ہیں جو ہمارے دل میں خوف بھر کر ہمارے دائرہ کار کا تعین کرتی ہیں اور ہم شعور کی لکیروں سے بے نیاز جہالت کی لکیروں میں قید زندگی کا دائرہ مکمل کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ لکیریں ایسی قطار یا سلسلہ بن چکی ہیں جو معاشرہ میں اتحاد و مروت، رواداری اور برداشت کے ذہنی عمل کی یکسوئی کو بھی دو طرفہ ٹریفک میں ڈھال رہی ہیں۔ جہاں دن بھر گاڑیاں ٹکراتی ہیں اور اپنی لائن کراس کر کے دوسروں کے راستے بند کیے جاتے ہیں۔
پرانے دستور، قدیم طریقوں یا روایات و رسوم کے ساتھ دور جدید کے بکھرے رویوں کی لکیریں ایک ایسا جال بن چکی ہیں جس میں کبھی کوئی مچھلی نہیں آتی۔ معاشرے میں بے جواز کھینچی جانے والی لکیروں نے کتنی ہی زندگیاں کھا کر کبھی نہ مٹتے والی لکیروں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ہماری بات بھلے پتھر پہ لکیر نہ بنے لیکن ہم بزدلی و فرار کی لکیر کے فقیر ہیں۔
ہمارے رویے اور تہذہب کے فرسودہ نظام نے فرد کو ایسی لکیروں میں جکڑ رکھا ہے کہ کوئی چھوٹا گروہ کتنے ہی زور سے اڑان بھرے یہ جال نہیں ٹوٹ سکتا۔ لکیریں ہاتھ کی ہوں یا فاصلوں کی، مٹنے، بننے کے عمل میں انسانی زندگی کے تغیر کو تماشا بنا سکتی ہیں۔ گویا لکیر ہی وہ حد فاضل ہے جو گروہ سازی کا راستہ ہموار کرتی ہے۔
لکیر سرحد پہ ہو یا دل میں کھینچی جائے، ایسی دیوار بن جاتی ہے جسے ڈھانا آسان نہیں رہتا۔ اقتدار کی لکیر کے ساتھ چونکہ اختیار بھی منسلک ہوتا ہےاور چھوٹی موٹی سب لکیریں اقتدار کے ساتھ ایکا کر لیتی ہیں تبھی تو یہ آکاس بیل کی صورت پھیلتی رہتی ہے اور عوام کے ہاتھ کی سب لکیریں کھا جاتی ہے۔ بقول داغ دہلوی
سمجھو پتھر کی تم لکیر اسے
جو ہماری زبان سے نکلا
عوام کی فرمانبرداری بس چہروں پہ تفکر و پریشانی کی لکیریں بناتی رہتی ہے۔ یہ رمز کس پہ کھلے کہcross the line گل و گلزار ہے یا بیاباں! ہم میں سے کتنے ہی انجان ہیں تو بہت سے واقف حال بھی ہیں یا یوں کہیے گھر کے بھیدی بھی ہیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم زندگی و دل کی سب تازگی نوچ کر عوام کو پرے پھینک دیتی ہے۔
اس عمل میں عوام کے ہاتھ کی لکیریں مٹ کر ماتھے کو ہی نہیں پورے وجود کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ کاغذات میں لائن آف غربت پار کرنے والے حقیقی زندگی میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ایسے لگتا ہے کہ اپنی قسمت کی اندھی لکیروں سے چرمرایا وجود باقی بچ گیا ہے۔ بس ایک محبت کی لکیر ہے جو کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ یک طرفہ فیصلوں کی طرح محبت کی لکیر بھی ادھوری رہتی ہے۔
اس لکیر کے ساتھ بے شمار اندیشے، جھوٹ، بزدلی، شکوک و شبہات کے سائے اس لکیر پر آسیب کی طرح ڈیرا ڈال لیں تو جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ محبت کی لکیر مٹتے مٹتے بھی نشان چھوڑ جاتی ہے۔ جیسے کپڑے کا رنگ چھٹ کر سب خراب کر دیتا ہے۔ دیگر لکیروں کے برعکس محبت کی لکیر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ محبت کی لکیر کوئی حصار نہیں کھینچتی بلکہ نقب لگاتی ہے۔
یہ محبت صورت بدل لیتی ہے لیکن مٹتی نہیں۔ ہم تو محبت کی سطح پر کھڑے لکیر پیٹنے والے لوگ ہیں۔ محبت کی آدھی لکیر تھامے اس کے آدھے حصے کے منتظر۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لکیر کو پار کرنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں۔ محبت کی لکیر کو کبھی ایکسٹینشن نہیں ملتی اور نہ ہی یہ سوال کرنے کی ہمت کہ کیوں نکالا۔
بجھی بجھی راکھ میں انگلیاں پھیرتے مسافر سے زندگی بھر کوئی لکیر نہیں بنتی۔ سرحد پار کر کے جانے والے بھلے واپس آجائیں لیکن ایک خلش سانپ گزرنے کی لکیر ہے جسے پیٹنےسے کوئی فائدہ نہیں۔ محبت کی لائن پر چلنا اوصاف حمیدہ کا امتحان ہے۔ اخلاق و دیانت کا وجود مجروح ہو تو محبت کی لکیر لائن آف کنٹرول بن جاتی ہے۔
خاردار تاروں سے ڈھکی جو صرف باطن کی تہہ پر اترتی ہے اور دل کو زخمی کرتی رہتی ہے۔ کوئی اور لکیر اس کا تریاق نہیں بن سکتی۔ محبت کرنے والے کو اس سے کیا غرض کہ کہاں دائرہ ہے، کہاں حصار اور کہاں ریڈ لائن۔