Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Kuch To Hote Hain Junoo Ke Asaar

Kuch To Hote Hain Junoo Ke Asaar

کچھ تو ہوتے ہیں جنوں آثار

ذہن سازی کی طرح ادارہ سازی بھی مخصوص عوامل کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہے۔ جس کے ذریعہ مقاصد کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں غیر معمولی تفہیم کی سطح پر نصاب سازی، تربیت اور امتحانی نظام کے ذریعہ بچوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلی کی سکولوں اور تعلیمی عمل کے بارے میں تشویش بجا ہے۔ بلا شبہ وہ اس خواہش میں حق بجانب ہیں کہ سکولوں میں تعلیم کا بہترین معیار قائم ہو۔

ہم سب کی بھی یہی خواہش ہے کہ صرف سکولوں میں نہیں بلکہ ہر ادارے میں ایسا معیار رکھا جائے جو ترقی یافتہ معاشرہ کی عکاسی کرے۔ اس کے لیے یک طرفہ فیصلے تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ شعبہ تعلیم کے ساتھ زیادتی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ آپ اسے این جی اوز کے حوالے کر دیں۔ جن سکولوں کی فیس 10 روپے سے 100 روپے ماہانہ ہے وہاں کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ این جی اوز فیسیں نہیں بڑھائیں گی۔

اب سکولوں میں اساتذہ کم از ایم۔ اے اور زیادہ سے زیادہ ایم۔ فل ہیں۔ یہ ان کی دانش اور لیاقت پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔ زمینی حقائق کو زمین پر بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے آسمان سے نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے حالیہ ہسپتالوں کے دورے نے بھی سسٹم کی دھجیاں ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھی ہیں۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو وزراء کے دوروں پر ہنگامی حالت میں نقلی مریض اور معالج اکٹھے کر لیتے ہیں۔

اور کیمرے بند ہوتے ہی جھوٹ کی دکان اٹھ جاتی ہے۔ ماضی کے جن سکولوں کی مثال دی جا رہی ہے ہم انھی سکولوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ جب اساتذہ صرف پڑھاتے تھے۔ مردم شماری نہیں کرتے تھے۔ ہم نصابی سرگرمیاں صرف پرائیویٹ اداروں یا حکومتی اختیارات کی ماتحت نہیں تھیں۔ والدین اپنے بچوں سے استاد کی غیبت سننے کے شوقین نہیں تھے۔ نہ ہی میڈیا کے مائیک اور خفیہ کیمرے بچوں کو اپنے ہی پھیلائے کاغذ چننے کی خبریں زور و شور سے جاری کیا کرتے تھے۔ مار نہیں پیار کے نعرے لگا کر استاد کو شٹ اپ کال نہیں دی جاتی تھی۔ بھاری بستے نہیں تھے لیکن ذہن بیدار تھے۔

ہم نے اساتذہ سے ہی اچھے برے کی تمیز سیکھی تھی۔ لیکن اب جن کو نبض شناسی کا علم ہے انھیں اس صلاحیت کے استعمال اور دوائی تجویز کرنے کی ممانعت ہے۔ جاپان میں طلبہ کو کھانا پکانے سے دستر خوان بچھانا، کھانا سرو کرنا، برتن اٹھانے سے لے کر برتن دھونے اور کلاس روم سے پورے سکول کی صفائی کی ذمہ داری دی جاتی ہے لیکن والدین کی طرف سے کبھی اعتراض اور شکایات کا طوفان نہیں اٹھتا تو پھر ہمیں نواب بننے کی تربیت کیوں دی جارہی ہے جب کہ ائیر پورٹ پر بورڈنگ پاس ہاتھ میں لیے لوگ بھیک مانگنے سے نہیں شرماتے اور حج کے موقع پر جیبیں کاٹتے، چوری کرتے انھیں کوئی ندامت نہیں ہوتی۔

حالت تو یہ ہے موٹر سائیکل مکینک گردے تبدیل کرنے کے 28 آپریشن کر لیتا ہے، مریضوں کے گھروں میں جا کر سرجری کرتا ہے اور مریضوں کو اینیستھیزیا بھی خود دیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر سب مریضوں کی سرجری کامیاب ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس مکینک کو ایم بی بی ایس کی اعزازی ڈگری دی جائے۔ جہاں اتنے لوگ پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں لے رہے ہیں۔ وہاں یہ تجربہ بھی سہی۔ آخر اتنے سالوں کی ناکامی کے بعد بھی ہم تجربات سے کب باز آئے ہیں۔

دانش سکول یا ماڈل سکول بنائے بغیر سہولیات کی فراہمی ممکن کیوں نہیں ہے۔ ہم صاف پانی کے چشمے جاری کرنے کے بجائے برف سے پانی ہی کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ کیا ہم صرف دوروں کے قابل رہ گئے ہیں۔ فیصلہ سازی اور اعتبار کب سیکھیں گے۔ جن پرنسپلز کو اتنی چھانٹی کے بعد اختیارات دیے جاتے ہیں اور پھر puppet کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ آخر ایک ماہ کے لیے آزمائشی طور پر سکول ان کی ذہانت کے حوالے کیوں نہیں کیے جا سکتے۔ تا کہ نگرانی اور احستاب کرنے والے تمام محکموں کو بھی تھوڑا سانس لینے اور کیکڑے کے پنجوں سے نکلنے کا موقع ملے۔

پوری قوم کو ایک وسیع میدان میں بے یارو و مددگار چھوڑنے کی بجائے بہتر ہے۔ اس میدان میں کیاریاں بنا دی جائیں اور ہر ایک کی مہکتی گل و گلزار کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ صرف بند لفافوں میں خط نہ بھیجے جائیں جوابی خط بھی طلب کیے جائیں اگرچہ حالت غالب کی سی ہی ہے۔

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt