Jhoot Aur Sach
جھوٹ اور سچ
جھوٹ اور سچ دو متضاد حقیقتیں ہیں۔ دنیا کے ہر قانون میں سچ کو اخلاقی قوت اور جھوٹ کو دھوکا اور فریب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کہانیوں فلموں اور روایات کے ذریعے سچ کو ایسی قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو حق کی علامت اور بہادری کا نشان ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے،کہ سچائی فاتح اور جھوٹ ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ اس بات کی تردید ممکن ہی نہیں کہ جھوٹ ایک برائی اور سچ اخلاقی معیار کی بلندی، دنیا کے تیزی سے بدلتے منظر نامے میں جھوٹ اور سچ کے لبادے ااتنی صفائی سے تبدیل ہوئے ہیں کہ بے ساختہ دل سے نکلتا ہے۔
دوست دوست نہ رہا پیار نہ رہا
زندگی ہمیں ترا اعتبار نہ رہا
ایک چینی کہاوت ہے کہ جھوٹ ساری دنیا کا سفر کر لیتا ہے جب کہ سچ ابھی تسمے باندھ رہا ہوتا ہے۔ یہ بات زمانہ حال کی منافقت پر بھی صادق آتی ہے،جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئےاور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا(وسیم بریلوی)
جھوٹ کے ذریات میں فریب، دھوکا، وعدہ خلاف، استحصال سب شامل ہیں۔ بے وفائی تو خاص طور سے جھوٹ سے منسلک ہے، نہ تم آئے نہ شب انتظار گزری ہے سےاندازہ ہوتا ہے کہ ایسے جھوٹ کا محبت سے گہرا تعلق ہے۔ وعدہ خلافی کے تیر اور بھی کاری ہیں۔ یعنی غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا،فی زمانہ روایات اتنی تیزی سے بدل رہی ہیں کہ وعدہ بنھاہنا آسان نہیں رہا۔ خاندانی مسائل۔ مذہبی تعصب دوسروں کے تنکوں کو شہتیر بنانے میں مصروف عمل ایک بے ترتیب ہجوم کو دیکھیں تو ہیر رانجھا سسی پنوں اور اردو شاعری کے عاشق و محبوب کے مسائل اپنے اپنے معلوم ہوتے ہیں۔
وفا کے دعوی جھوٹ کے پل پر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ مجموعی رویے اس طرح پروان چڑھے ہیں کہ گری ہوئی اخلاقیات سے زیادہ فکر گرتی کرنسی اور نظر گرے ہوئے سکوں پر رہتی ہے۔ اپنے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہم لوگ شطرنج کے وہ ماہر کھلاڑی ہیں رجن کے لیے کوئی بھی مہرہ اٹھانا اور گرانا کی بورڈ کے بٹن پریس کرنے جتنی مہارت کا متقاضی ہے اس عمل میں۔ ٹائیپنگ کی اغلاط کی کوئی اہمیت نہیں۔
دوسری طرف ادب کی محبوب اور عاشق کی یہ بے وفائی سیاست کا شیوہ بن چکا ہے اور یہی بے پروائی عوام کا چلن۔ جھوٹ تقریر تحریر سے لے کر تصاویر اور ویڈہوز تک پہنچ چکا ہے۔ جس کو جہاں چاہے بٹھا سکتے ہیں۔ اور جو صورت چاہیں دکھا سکتے ہیں۔ اب تو ہر قسم کی پلاسٹک سرجری تصاویر کے ذریعے ممکن ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کا دیو اپنے نرم ہاتھوں سے تھپکی کے ساتھ یہ بھی پکار رہا ہے
کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا
کہیں وعدے بھی نبھانے کے لیے ہوتے ہیں (عبرت مچھلی شہری)
وقت کے معیار ہی نہیں صورتیں بھی بدل چکی ہیں۔ اور کئی بار یہ صورتیں بدلنا مجبوری بن جاتی ہے۔ جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنانا ہی پڑتا ہے شاید اس لمحے جھوٹ کی طمانیت کا اندازہ لگانا ممکن نہ ہو سکے۔ ایسی صورت حال میں جھوٹ اپنی عالی ظرفی پہ ناز کرتا ہے کہ وہ کسی کے آنکھوں کے خواب ڈھانے میں حصہ دار نہیں۔ سچ اور جھوٹ کا یہ تعلق ازل سے قائم ہے۔ ایک کی ہار دوسرے کی جیت بن جاتی ہے۔
سچ کے گلے کے ہار جھوٹ کی قبر پر چادر بن جاتے ہیں۔ اور کہیں سچ کی حسین صورت پہ دھول اور جھوٹ کی دل ربائی عروج پر نظر آتی ہے۔ جھوٹ فن کار بنتا ہے تو سچ کا ماتم مناتا ہے۔ اور سچ اگر دار پر ہو تو جھوٹ کی فن کاری پر مسکراتا ہے۔ یہ چلن صدیوں سے رائج ہے۔ جھوٹ اور سچ کا یہ رشتہ محبت سے بندھا رہے تو وقار قائم رہتا ہے جس طرح محبوب کی بے وفائی پر بھی اسے خوش رہنے کی دعا دی جاتی ہے۔ جھوٹ یہی حقیقت ہے کہ
مری زباں کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار کم کرنا (عاصم واسطی)
ایک تحقیق کے مطابق اگر لوگ اکسی ٹاؤسن نامی ہارمون سونگھ لیں تو وہ جھوٹ بولنے میں طاق ہو جاتے ہیں۔ ہمارے تو پورے معاشرے کی فضا میں لگتا ہے یہ ہارمون رچ بس گیا ہے جو ہم دیدہ دلیری سے صرف جھوٹ کی پرورش ہی نہیں کرتے اس کا دفاع بھی کرتے ہیں ،جھوٹ کتنے بھی راستوں سے آئے اسے سچ کے سمندر میں اپنا وجود کھونا ہی پڑتا ہے، یہی دائمی سچ ہے۔ تو پہلے ہی سچ کے راستے پر سفر کیوں نہ شروع کر دیں آسانی رہے گی۔