Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Insaf Ki Degchi

Insaf Ki Degchi

انصاف کی دیگچی

عجیب پیتل کی دیگچی تھی جب بھی کوئی چیز پکائی جاتی خشک ہو کر پیندے سے لگ جاتی یوں جیسے سوکھے اور تشنہ لبوں کی پپڑی پر نیا بور بھی کوئی پھل نہیں کھلا پاتا۔ کبھی تو تہہ بھی اتنا جل جاتی کہ کھرچن کھانے کے قابل ہی نہ رہتی۔ چنوں منوں ہمیشہ اسے بڑے برتن کی کھرچن قرار دیے کر ہر دور کے فاتح قرار پاتے اور بعد میں خود کو شاباشی بھی دیتے۔

گلی میں جب بھی برتن قلعی کروانے والا آتا سب سے پہلے یہ دیگچی پالش کروائی جاتی لیکن اس دیگچی میں عجیب رمز تھی کہ پالش ہونے پر اس کا زنگ مذید نمایاں نظر آنے لگتا۔ لیکن سب اسے یہ سوچ کر پالش کرواتے رہے کہ کہیں کھرچن بھی ضائع نہ چلی جائے۔ یہ کھرچن بھی عام لوگوں کے لیے نعمت تھی۔ عمرو عیار کی زنبیل کی طرح دیگچی میں بھی کھرچن امڈے چلے آتی۔ پورے محلے کے لیے یہ کھرچن وبال جان بن چکی تھی۔

روٹی کے لقموں کو ترسنے والے اس کھرچن سے جان چھڑانا چاہتے تھے لیکن یہ تو کمبل کی طرح لپٹ گئی تھی۔ یہ دیگچی محلہ بھر کا واحد مشغلہ تھی۔ وہ یہیں موہوم مستقبل کے خواب بوتے لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ چندہ جمع کرتے ہوئے یہ دیگچی مصالحہ بھری دیگ کا چغہ پہن لیتی یوں جیسے کسی سنپولیے کو اچھا دھاری کھال مل جائے اور وہ پہننے اتارنے میں ہی اسے پھاڑ ڈالے۔

بالکل اسی کہاوت کی طرح جس میں کھسرے منڈا پیدا ہونے پہ چوم چوم کر ہی اسے مار ڈالیں۔ سہولیات کی فراہمی کا سوال اٹھتا تو دیگچی کی کھرچن بھی سکڑ جاتی اور گلک کے پیندے کو بھی نہ ڈھانپ سکتی۔ خواب تہہ سے چپکے رہتے اور تعبیر کھرچن بن کر خوب ناچتی۔ منصوبوں کی بے شمار دیگوں سے تو کھرچن بھی برآمد نہ ہوتی۔ اس لحاظ یہ دیگچی غنیمت تھی۔

اس کھرچن کے بھی بے شمار دعوی دار تھے جو وقت آنے پر اسے کھیر، بریانی، چکن روسٹ، مٹن کڑاھی اور ذائقہ دار پکوان ثابت کرنے میں فائلوں کے انبار لگا لیتے۔ فائلوں کے پہاڑ ہمیشہ اپنی چوٹی اوجھل رکھتے۔ کتنے ہی علی سد پارہ ان چوٹیوں کو سر کرنے میں جان گنوا بیٹھے اور گنواتے رہیں گے۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے چوٹیوں کا طول و عرض تبدیلی کے مراحل سے گزرتا اور روٹی کھلنے کی باری پہ دیگ بہہ نکلتی۔ بازی گر ایسا کھلا دھوکا دے کر خوب داد سمیٹتے۔

یہ دیگچی چوراہے کی نہیں، بند کمرے کی ہانڈی تھی جو عوام الناس سے بھرے میدان میں پھوٹتی۔ کھرچن کا حساب بھی پٹاخوں جیسا سا تھا۔ جب جی چاہتا پھٹتے اور جب موڈ نہ ہوتا سوئے رہتے۔ غریب کا غبارہ بھی پھٹ جاتا اور امیر کے جہازوں میں تیل بھروانے کے لیے بھی یہ کھرچن ہی استعمال کی جاتی۔ تہہ سے لگی مذہب کی با برکت کھرچن سے کئی دیگیں پکتیں تو جلی، پیندے سے چپکی کھرچن ہمیشہ سطح آب کا گھی معلوم ہوتی۔

فائدہ اٹھانے والے اسی سے روٹی چپڑ چپڑ کر کھاتے البتہ عوام کے لیے دیگچی کی وہی کھرچن تھی جس میں گھی کا تڑکا کبھی نہیں لگ سکتا تھا۔ وہ پچھتر سال سے سوکھی روٹی دیکھ سکتے تھے اسے پانی سے تر کرنا بھی ان کی استطاعت سے باہر تھا۔ کیچڑ دلدل بن چکا تھا۔ پیتل کی اس دیگچی کو کیا سمجھیں البتہ ہر دور میں اسےانصاف کی دیگچی کا نام ہی دیا جاتا ہے۔ چمکتی دیگچی میں کسی نے کبھی کچھ پکتے دیکھا ہی نہیں تھا۔ آگ جلا کر پتھر ابلتے بھی نہیں دیکھے۔ البتہ اس کی کھرچن زمانوں سے مشہور ہے اور خوب گل کھلاتی ہے۔

معصوم اور سادہ اذہان اس دیگچی میں کھاد ڈالیں، قلمیں لگائیں یا بیج ڈالیں۔ سب مایا ہے، سب کھرچن ہے۔ دور جدید کے اپنے مسائل ہیں جس دیگچی میں بھی دو باٹ زیادہ ہوں وہ اس کا وزن بڑھانے سے زیادہ عام لوگوں کے سر پہ مارنے کے کام آتے ہیں۔ راستہ کاٹنے سے لے کر گڑھا کھودنے تک کے بعد کھرچن ناچتی ہے اور خوب دھمال ڈالتی ہے۔ صدیوں کی خیالی دیگ کی باقیات اب تن آور اشجار ہیں۔

یک طرفہ محبت کی طرح یک طرفہ خلوص و قربانی اور دیانت کی بھی بارٹر سسٹم میں قطعی گنجائش نہیں۔ تاریخ میں ایسی بے شمار کھرچنوں کا ذکر ہے جو زمانہ حال تک پہنچتے پہنچتے دیگ بن گئی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ بہت سی روایات لنگر کی دیگ کو بھی کھرچن ثابت کرنے میں ہلکان ہیں۔

Check Also

Chal Ke Hum Ghair Ke Qadmon Se Kahi Ke Na Rahe

By Asif Masood