Hum Se Koi Taluq Khatir To Hai Usay
ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے
"عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب" سے خیال فوری طور پر محبوب کی طرف جاتا ہے۔ محبوب جسے ماورائی سمجھیں یا نا سمجھیں، تاہم وہ جنس، مذہب اور عمر کی قید سے ماورا ہوتا ہے۔ محبوب جو ذات، گروہ اور فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوتا ہے۔ محبوب کی بس ایک ہی صفت ہے وہ یہ کہ محبوب برا یا بھلا نہیں، بس محبوب ہوتا ہے۔ یعنی
"اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے "۔
ہمارے معاشرہ میں عام طور پر محبوب کا قحط الرجال ہے۔ بس شوہر اور بیوی کا رواج ہے۔ دونوں کو محبوب بننے کی چاہ لیکن انھیں کردار عاشق ہی کا نبھاہنا پڑتا ہے۔ اسے ہم فی زمانا عاشقی کا چولا بھی کہہ سکتے ہیں۔ ویسا ہی لبادہ جیسے پیرحاضر مقام میقات سے بے نیاز پہن کر خوب ہلڑ مچا رہے ہیں۔ خود ہی صید، خود ہی صیاد۔ لیکن قید کاٹنے کو عوام کا جم غفیر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ اور دور حاضر کےجعلی پیر ٹھٹھے لگا رہے ہیں۔ نصیب اپنا اپنا۔ "مہمان اِدھر ہما ہے اُدھر ہے سگِ حبیب"۔
عاشق کا کردار شاید کچھ زیادہ ہی سوشل ہو چکا ہے اور زیادہ لائکس لینے کے چکر میں مضمرات سے بے نیاز بھی۔ شاعر نے خدا کے جن بندوں کی طرف اشارہ کیا تھا کہ وہ بنوں میں مارے مارے پھرتے ہیں وہ عاشق ہی تھے۔ مختلف پرجاتیوں کی طرح محبوب کی بھی بہت سی اقسام ہوتی ہیں۔ جیسے چلتے پھرتے محبوب، عشق مکاؤ محبوب، گروہ در گروہ محبوب۔ محبوب کی یہ اقسام آسانی سے پہچان میں نہیں آ سکتیں۔
ہمارے ہاں کچھ محبوب دیوار گریہ کی صورت رکھتے ہیں۔ جن سے لپٹ کر بس رویا جا سکتا ہے۔ اس دیوار گریہ میں گزشتہ محبت اور اعتماد کے وعدے دفن رہتے ہیں۔ ہمارے نظام میں اس دیوار گریہ کے طلوع ہونے کا وقت عام طور پر پانچ سال کا ہے۔ لیکن شافی علاج کے لیے یہ دیوار کبھی تین سال، کبھی چار سال اور ایمرجینسی کی صورت میں گیارہ گیارہ سال کے بعد طلوع ہوتی ہے جس کے اثرات گرہن در گرہن در و دیوار کی صورت تبدیل کر جاتے ہیں۔
اس عرصہ ہجر میں عوام کے اشک بھی ٹھنڈے ٹھار پڑ چکے ہوتے ہیں اور جذبے بھی۔ ایسی بہت سی صورتوں میں جن کے پیٹ پر لات پڑتی ہے، وہ پیٹ پر پتھر باندھے روئے چلے جاتے ہیں۔ خدا جانے یہ عاشق و محبوب کی کون سی روایت ہے جس کے چراغ سلگتے رہتے ہیں۔ خیالی محبوب" ھما " کی طرح ہوتا ہے۔ اسے ریاضی کے فارمولوں کی طرح بس فرض کیا جا سکتا ہے ہزار آرتیاں اتاریے یا دھونی دیجیے۔
یہ محبوب کسی تصویر سے باہر نہیں آتا۔ وہ سر مخصوص بھٹی میں ڈھالے جاتے ہیں جن پر ھما بیٹھتا ہے۔ ہر کس و ناکس تک بس ھما کی کہانیاں پہنچتی ہیں۔ یعنی کھلونے دے کر بہلائی جانے والی قوم۔ اب تو مارکیٹ میں دیگر کھلونوں کی طرح" ھما " بھی دستیاب ہے جو اچھے اچھوں کے سر سے گزر کر کھلواڑ کرتا ہے۔ کئی محبوب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی رسی ہمیشہ دراز رہتی ہے اور دراز سے دراز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ دراز کی 11.11 کی سیل کی طرح۔ ایسے محبوب بم کی طرح پھٹتے ہیں اور سب تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ان کا ملبہ عوام پر ہی گرتا ہے۔
افلاطونی محبوب اس استانی کی طرح ہوتا ہے جو محبت ناموں میں بھی املا کی اغلاط نکال کر نمبر کاٹ لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے غالب نے قاصد کے واپس آنے تک ایک اور خط لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا ہوتا تو ایک ہی خط ہر اکاونٹ سے نمایاں عنوان سے شائع ہو سکتا تھا۔ لیکن وائے قسمت۔ سیاسی محبوب کی اندر سے کئی چھوٹے چھوٹے محبوب نکل کر خوب اودھم مچاتے ہیں۔ اردو شاعری میں بس چٹانی محبوب کا رواج ہے۔۔
چٹان بھربھری بھی ہو جائے تو بھی چٹان ہی رہتی ہے۔ وہ کبھی محبوب کی مسند سے اترتے ہی نہیں۔ یہاں تک کہ بعد مرنے کے بھی آنکھ کھلی رہتی ہے تا کہ محبوب کی صورت آنکھوں میں بسی رہے۔ اردو شاعری کا محبوب زمانی فاصلوں کی درز سے جھانک تاک کرتا رہتا ہے۔ آج بھی اس کی صورت نہیں بدلی لیکن زمانی فاصلوں کے رخنے اس کے رستے میں ریگستان بچھائے ہوئے ہیں۔ اب اس محبوب کے تذکرے ہیں۔
آج کل آن لائن محبوب بھی دستیاب ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک سے محبوب کی تجارت پر کوئی پابندی ہے نہ اس کے رستے میں رکاوٹ ہے۔ الیکشن کے دنوں میں محبوبیت کی ردا اوڑھے بڑے بڑے محبوب اپنی محبوبیت کا چندہ لینے نکلیں گے۔ دیکھتے ہیں ھما کسے محبوب بنائے گا اور کس سے وفا کرے گا یار نے کس کے دست و پا رنگیں کیے ہیں۔ تخت لاہور پر وہی بیٹھے گا جس نے پرکھوں سے وفا کی ہے۔
"سر پر ہے کس کے ظل ہما کچھ نہ پوچھئے "