Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Haste Haste

Haste Haste

ہنستے ہنستے

جوکر، مسخرہ اور کلاؤن الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ "جوکر" آئس لینڈی زبان کے لفظ "کلونی" سے آیا ہے جس کا مطلب ہے "ایک اناڑی شخص"۔ جب کہ قدیم مسخرے 2400 قبل مسیح کے قریب، مصر کے پانچویں خاندان میں پائے گئے ہیں۔ بعد کی تہذیبوں میں مسخروں کے بارے میں مختلف مفاہیم بھی بیان کیے جانے لگے۔ ابتدائی جوکر پجاری بھی تھے اور ان کے کردار بھی تقریبا ناقابل تقسیم تھے۔

اصل مسخرے کے چند کردار جدید کامیڈین ڈیل آرتے نے کیے ہیں جن کو قدیم یونانی اور رومن رومان کے دیہاتی بیوقوف کرداروں سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ سرکس کے حقیقی مسخرے کا سب سے قدیم کردار جوزف گریاملڈی تھا، جو 1805 میں انگلینڈ میں نمودار ہوا تھا۔ گریا ملڈی کے جوکر، جس کو پیار سے "جوی" کہا جاتا ہے، کلاسیکی جسمانی چالوں، گنبد، پریشانیوں اور تھپڑ مار پیٹ میں مہارت کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔۔

اسی طرح جیسٹر اپنے تیز دماغ، چال چلن، عداوت اور ہمت کی وجہ سے ہمیشہ حکمرانوں کے پسندیدہ رہے۔ ایک جوکر کو بدلے میں اکثر گھٹن ملتی تھی۔ یہ خیال فلم "جوکر" میں بھی فلمایا گیا ہے۔ گویا زیورات کی زینت بننے والا ایک جوکر مزاح، چنچل، قابلیت، لاپرواہی، زندگی کے اتار چڑھاؤ، اداکاری اور قسمت وغیرہ کی علامت ہے۔

اسٹیفن کنگ کے ہارر ناول میں یہ کردار ایک قدیم کائناتی برائی ہے۔ جس کے شیطانی منصوبوں میں متعدد طاقتیں استعمال کی جاتی ہیں جن میں شکل بدلنے والا، حقیقت میں ہیرا پھیری کرنے اور کسی ذریعہ سے دوسروں کا دھیان بٹانے کی صلاحیت شامل ہے۔ عدالتی جیسٹروں کے برعکس، مسخروں نے روایتی طور پر معاشرتی اور مذہبی اور نفسیاتی کردار ادا کیے ہیں، اور روایتی طور پر پادری اور مسخرا کے کردار ایک ہی شخص کے پاس بھی رہے ہیں۔۔

بہت سے مقامی قبائل کے ہاں مسخروں کی باقاعدہ تاریخ ہے۔ لیکن آج کل کے مسخروں کے پاس نہ تو صحیح ہنر ہے، نہ تعلیم اور نہ ہی تربیت یافتہ سوچ۔ ان کے عقائد مسمار ہیں اور روایات کی دیوار سے اینٹیں سرکتی جا رہی ہیں جسے وہ اپنا ہنر سمجھ رہے ہیں۔ مننجدھار میں کشتی کے سوراخوں پر ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ اب یہ مسخرے ہر شعبہ زندگی میں ہیرا پھیری اور طاقت کی علامتوں کے ساتھ موجود ہیں اور دوسروں کی لڑائیاں لڑتے ہیں۔ لگتا ہے انسان کے اپنے غم ختم ہو چکے ہیں۔

اس کی باریک بین نگاہیں پل بھر میں دنیا بھر میں ہونے والے ظلم و ستم کو سمیٹ لیتی ہیں اور دوسروں کے سامنے رکھ کر ان سے تقاضا کرتی ہیں کہ لوگ دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیں۔ کچھ لوگ سنجیدہ بھی ہوں تو ہنسی آتی ہے اور کچھ لوگ جب ہنسیں تو افسوس ہوتا ہے۔ بہت سے سیاست دان بھی ایسا مسخرہ پن کرتے ہیں کہ انھیں بتانا پڑتا ہے کہ وہ مسخرہ نہیں۔ کئی بار کسی دانشور کی باتیں سن کر اسے یہ احساس دلانا ضروری ہو جاتا ہے کہ وہی تو حقیقی مسخرہ ہے۔ یہ الجھاؤ اس قدر گتھم گتھا ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کس کو کس خانے میں فٹ کیا جائے۔

ٹک ٹاک کے کتنے ہی مسخروں کے فالورز دیکھ کر ہر ایک کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی مسخرہ پن کے بیج خرید لے۔ ایک کلاؤن کو بادشاہ کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔ لیکن وہ راستے میں ایک بیمار بچے کو خوش کرنے کے لیے رقص اور مختلف کرتب دکھاتا رہا جس سے بچے کی بیماری ٹھیک ہوگئی اور وہ کلاؤن نیک دل روح کے روپ میں سامنے آیا۔ آج کل یہ مسخرے کسی بیمار، ضرورت مند کے پاس نہیں رکتے ان کا ہدف دربار ہے۔ کئی عالم بھی ایسی مسخری کرتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ ان کا تعلق مذہب اور قوم سے نہیں۔

ہر قوم اور گروہ کے پاس اپنے مسخرے ہیں۔ سب سے زیادہ مسخرے سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور کبھی تصاویر، کبھی الفاظ، کبھی کسی ایپ اور کبھی کہیں پتھر پھینک کر جعلی آئی ڈی کے پردے سے دانت نکوستے ہوئے جھانکتے ہیں۔ وہ سب کو بتاتے ہیں کہ وہ ہنس ہنس کر پاگل ہو گئے ہیں جب کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ تو پہلے سے ہی پاگل ہیں۔ کچھ ادبی مسخرے بھی ہوتے ہیں جو اپنے الفاظ سے لوگوں پر ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی پروانوں کی طرح جلنے بجھنے والی حرکات پر لوگ پہلے سے ہی ان پر ہنس چکے ہوتے ہیں۔ کئی بار ان حرکات پر ہنسی سے زیادہ رونا آتا ہے لیکن ایسے کسی عمل سے ان کو افاقہ نہیں ہونے والا۔

ہر سیاسی پارٹی نے بھی اپنے اپنے مسخرے رکھے ہوتے ہیں بلکہ مسخرے اب سیاست میں بھی قدم رکھ چکے ہیں اور سادہ بیان سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے بیانات اور ٹویٹ سے لوگ سال بھر کی تھکن بھول جاتے ہیں۔ نئے نئے صحافت سیکھنے والے مائیک پکڑتے ہی عجب ہیئت اختیار کر لیتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ مسخرے لوگوں کو ایسے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگ سر پکڑ کر روتے ہیں۔

کچھ لوگ لاکھ سنجیدہ بات کریں، پھر بھی مسخرہ ہی لگتے ہیں اور ہاسا نکل جاتا ہے۔ دور حاضر کی سیاست میں مسخرے بہت پاپولر ہیں لیکن عوام ان کی قدر نہیں جانتے عوام کا ذوق سلیمی گرتا جا رہا ہے۔ وہ عوام جو ہر وقت مہنگائی کا رونا روتی رہے۔ جس قوم کے استاد اپنے احترام کے متقاضی ہوں۔ جہاں مزاحیہ بیانات کے جواب میں بھی اپنا ہی ماتم جاری رکھا جائے۔ جہاں بچگانہ بات کے جواب میں سنجیدہ مضامین لکھے جائیں۔ ایسی قوم یقینا ایک مردہ قوم ہے سو فیصلہ کیا گیا ہے کہ قوم ہنسانے کا عمل ہر سطح پر جاری رہے گا شاید پاگل ہو کر یہ ہنسنا سیکھ لے۔

سڑک پہ گرے شخص پر ہنسنے والے اخلاق و کردار سے گرے شخص کو نظر انداز کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے کیا سچ لکھا ہے۔

تمام شہر کی جب بے حسی ہو سکہءوقت

تو مول تول کوئی مسخرہ ہی طے کرے گا

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam