GCU Aur Teesra Pehlu
جی سی یو اور تیسرا پہلو
یونیورسٹی کا شعور اور تعارف کی ابتداء بارہویں صدی سے ہوئی تھی، اس کی بنیاد میں وہ تنازعات موجود تھے جو مختلف مضامین اور کیتھولک چرچ کے علماء کے مابین پیدا ہوئے تھے۔ یونیورسٹی کا اصل فرض اور ذمہ داری تعلیم محض سے بالاتر ہے۔ تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ کسی حد تک یونیورسٹی کا تعلق اقتدار و انصاف سے بھی ہے۔ یونیورسٹی آف بولون کو قانونی شعور کی وجہ سے یونیورسٹیوں کی ماں کہا جاتا ہے۔
یونیورسٹی کا اصل کام طلبہ میں مکالمہ کا شعور بیدار کرنا ہے جس کی بنیاد صنفی احترام پر رکھی جا سکے۔ سماجی و صنفی شعور کو مکالماتی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے "بانو قدسیہ سوسائٹی برائے صنفی آگہی" کے اشتراک سے ایک علمی سیمینار "تیسری جنس کے مسائل و حقوق بزبان تیسری جنس اور قانون" کا انعقاد کیا۔ اس سیمینار کے روح رواں انتہائی اعلی تخلیقی اذہان صدر شعبہ ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر الماس خانم اور ماریہ امین تھے۔
ڈاکٹر صائمہ ارم کی حاضر دماغی اور ذہن رسا کی میں قائل ہی نہیں، ڈاکٹر الماس خانم سمیت مداح بھی ہوں۔ ہم دونوں گواہ ہیں کہ ڈاکٹر صائمہ ہمیشہ دور کی کوڑی لاتی ہیں اور اسے عنبر فشاں گوہر بنا کر سامنے رکھ دیتی ہیں۔ وہ تحقیقی و تخلیقی ذہن کی مالک ہیں اور منظر نامہ کا ایسا پہلو تلاشتی ہیں جو منفرد ہو۔ ڈاکٹر الماس اس موضوع کے حوالے سے خاصی پرجوش تھی۔
اس کے تحقیقی ذہن میں زیر بحث موضوع کے تعلق سے نزاکتوں کا بار موجود رہا۔ جسے ان قابل لڑکیوں نے اپنی ناتوانی کے باوجود بخوبی نبھایا۔ وی سی پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی تمغہ امتیاز کی ذاتی دلچسپی اور تعاون سے خواجہ سرا فیضی کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ اس اعتبار سے خوش کن رہا کہ مکالمہ کے تمام تر لوازمات کا خیال رکھا گیا فیضی اردو میں ایم فل ہے اور پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے دلیل سے اپنی کمیونٹی کے مسائل کی بات کی۔
فیضی نے علمی ہی نہیں اپنے حق کے لیے قانونی جنگ بھی لڑی ہے۔ ماہر قانون لیاقت علی بھی اس سیمینار میں قانون کی تفہیم کے لیے موجود تھے۔ چونکہ ہمارے ہاں ایک قانون کا فیشن ہی نہیں۔ خود کو مکمل انسان ثابت کرنے کے لیے امیر و غریب کو ایک آنکھ سے دیکھنا بھی محرومی ہی سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے قانونی نکات سب کی سمجھ میں شاید نہ آ سکیں۔
قانونی مساوات کے نعرہ کے باوجود تیسری جنس کے لیے کوئی اسپتال، ادارہ، پناہ گاہ موجود نہیں۔ ان کے لیے حج، عمرہ پر پابندی ہے۔ وہ ایسی دیوار ہیں جسے گریہ کی بھی اجازت نہیں۔ فیضی کا یہ سچ اتنا سفاک ہے کہ وہاں موجود باشعور طلبہ و اساتذہ نے اس کا درد محسوس کیا جس کا درماں سماج کے پاس ہے لیکن من گھڑت کہانیوں، جھوٹی اور خود ساختہ تفاہیم نے آنکھوں، کانوں پر نادیدہ پٹی باندھ رکھی ہے۔ جسے اتارنے کی کوشش میں ہی یہ مکالماتی اہتمام کیا گیا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی نے بتایا کہ انھوں نے چارج لیتے ہی داخلہ پالیسی تبدیل کی اور ہر شعبہ میں اوپن میرٹ کے ساتھ خواجہ سراؤں کے لیے مخصوص نشستوں کا بھی اہتمام کیا۔ انھوں نے کہا محرومی اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے ساتھ جینا اعلی ترین انسانی وصف ہے لیکن جہالت کے ساتھ جینا ذہنی طور پر مفلوج سماج کی عکاسی ہے۔ یہی کم اہلی ہمارا سنگین مسئلہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی رائے میں جینڈر گیپ حقوق و فرائض کو رد کرنے میں مدد کر رہا ہے۔ وہ سوسائٹی جہاں عورت، مرد کی ذمہ داری اٹھا رہی ہے اور جہاں مرد فرار کی راہ برقعہ اوڑھ کر اختیار کریں۔ یقینی طور پر شناخت سے محروم گروہ ہے۔ پروگرام کی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر الماس خانم نے کہا کہ تعلیم کو ادھورے انسان سے نہیں، ادھوری معلومات سے خطرہ ہے۔ سو ہر یونیورسٹی اور ادارہ میں ایسے طلبہ کو جگہ اور مواقع دیے جائیں۔
صدر شعبہ ڈاکٹر صائمہ ارم نے نو آبادیاتی ادب، نل دمن اور دیگر مثنویوں کے حوالے سے ان مشترکہ مسائل اور صلاحیتوں کا ذکر کیا جو اجتماعی طور پر ہر صنف سے متعلق ہیں۔ اگرچہ انھیں جوڑا نہیں جا سکتا تاہم ان کی تفہیم اور شناخت ضروری ہے لیکن ہم ان پر بات کرنے کی بجائے پٹیاں باندھ کر ہی بیماری کا علاج چاہتے ہیں۔
نل نے کہا اے طبیبِ نادان
ناحق نہ ہو نبض دیکھ حیران
ہے درد مرا جگر کے بھیتر
کیوں مارے ہے رگِ جنوں پہ نشتر
یہ دل جو میرا لہو سے تر ہے
پہچان جو تجھ کو کچھ نظر ہے۔
ادھورے علم پر فخر سے سر اٹھانے والی قوم ادھورے انسان کی شناخت کا خوف لیے ادھوری معلومات کی بنا پر فیصلہ چاہتی ہے جہاں اس کی بات رکھی جائے اور جس کی بات ہے اسے مار دیا جائے۔ ہمیں تیسری جنس کے حقوق اس لیے بھی تسلیم کرنا ہیں تاکہ وہ اپنی شناخت کے ساتھ بغیر کسی ڈر خوف کے زندگی جی سکیں، تعلیم حاصل کریں، ہنر سیکھیں اور ایک متوازن معاشرہ کی تشکیل میں مددگار ہوں۔
تیسری صنف ڈریکولا نہیں، زومبی نہیں، ذہنی اپاہچ نہیں، ان کی فطری محرومی فرد کا ذاتی مسئلہ ہے لیکن ہم اس سے معاشرے میں آگ لگانا چاہتے ہیں۔ کچھوے پر نظریں جمائے ہم سب اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں یہ اپنی گردن نہ باہر نکال لے۔ درحقیقت ہم سب بونوں کا اصل ڈر یہ ہے کہ
یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو نے وی سی پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی کی سرپرستی میں زینہ کی وہ پہلی اینٹ رکھ دی ہے جس سے گزر کر کم علمی و تعصب کی یہ دلدل پار کی جا سکتی ہے۔ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے۔