Choon Choon Chuha
چوں چوں چوہا
چوں چوں چوہے کی دم کیا شکنجے میں آئی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سب دیکھنے والوں کو جادو کے زور سے چوہا بنا دے۔ ہر طرف ہنستے کھیلتے، مشقت کے کولہو میں پستے، نادم اور مایوس غرض سب ہی اسے چوہے لگ رہے تھے اور اس کی خواہش تھی کہ ان سب کی دم نہیں بلکہ وہ پورے کے پورے شکنجے میں آ جائیں۔ فی الحال تو اس کی دم شکنجے کے تیز دانتوں میں تھی۔ چوں چوں چوہا چھپکلی تو تھا نہیں کہ دم چھوڑ کر بھاگ نکلتا۔
اس کا دھیان اس لطیفہ کی طرف گیا جس میں اس نے ہاتھی کی عمر کے جواب میں کہا تھا کہ عمر تو میری بھی اتنی ہی ہے لیکن بیماری کی وجہ سے دائمی کمزور ہو گیا ہوں۔ سو اس نے خود کو ہاتھی تصور کرتے ہوئے ساتھی آزاد چوہے سے ہنس کر کہا ہاتھی تو نکل گیا ہے بس دم رہ گئی ہے۔ چوہے کا سر آزاد تھا اور یہ آزادی بہت سوں کو طویل مدت تک غلام بنانے والی تھی۔ بس اس دن سے چوہوں کی افزائش دیدنی ہے اور یہ سب خود کو ہاتھی سمجھتے ہیں۔
چوہا چونکہ ذہین ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک سات سالہ افریقی چوہے میگاوتی کو اعزازی گولڈ میڈل بھی دیا گیا ہے۔ اس چوہے نے کمبوڈیا میں کئی زیر زمین بچھائی گئی بارودی سرنگوں کا تعین کرتے ہوئے انسانی زندگیوں کو محفوظ بنایا۔ ہندو اساطیر میں بھی اس چھوٹی سی مخلوق سے ان گنت داستانیں منسوب ہیں۔ جن میں ہندو بھگوان گنیش کو اکثر چوہے پر سوار دکھایا جاتا ہے کیونکہ چوہا اپنے تیز دانتوں سے بھگوان گنیش کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو کترنے میں مدد فراہم کرتا تھا۔
ہمارے ہاں چوہے ہاتھی پر سوار رہتے ہیں اور آخر کار اسے بھی چوہا بنا کر دم لیتے ہیں۔ چین میں بھی چوہا تصوراتی تحریک، تجسس اور وسائل کی بھرمار کا مرکز تصور کیا جاتا ہے اور چینی کلینڈر کا پہلا اور نمایاں جانور بھی ہے۔ اپنے ہلکے وزن اور سونگھنے کی حس کی بدولت چوہا خلا میں بھی زندہ رہ سکتا ہے لیکن جب جب وہ خود کو ہاتھی تصور کرتا ہے اس کی دم شکنجے میں آ جاتی ہے۔
اس صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دنیا بھر کے چوہوں نے ایک اجلاس بلایا اور یہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی طرح ظاہری اور مخفی طور پر ایسے چوہے تخلیق کیے جائیں جو ظاہری طور پر بھلے دولے شاہ کے چوہے نہ لگیں مگر ان کے دماغ ایک خاص سانچے سے باہر نہ نکل سکیں۔ ایسی تشکیلات و ساختیات میں اصل سے بعد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ما بعد کے اثرات تہذیبی سطح پر یک دم عیاں نہیں ہوتے۔ سو سال غلامی کے بعد بھی مکمل ہوش نہیں آتا۔
سو اس اجلاس کے بعد چوہے اور ہاتھی کی مماثلت تلاش کی گئی اور شکنجہ کو چیونٹی تصور کیا گیا۔ انصاف کا شکنجہ ویسے بھی با اثر شخصیات کے لیے ڈنگ نکالا سانپ ہے وہ بار بار اس پر پاؤں رکھتے ہیں، ناچتے گاتے ہیں۔ وکٹری کے نشانات بنا کر سر اٹھا کر گھریلو چوہوں کو دیکھتے ہیں اور سانپ تلملانے کی بھی سوچتا ہے۔ کچھ چوہے اپنے ہلکے وزن کے ساتھ ہر جگہ جانے اور کودنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں یہ خود کو اوجھل کر لیتے ہیں۔
رات آزمائش کی ہو یا خوف کی چوہے دم سادھ کر صبح ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور اپنی بھر پور کراہیت کے ساتھ پھر سے ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ تیز دانتوں والے یہ چوہے ہر شکنجہ کترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گروہی صورت میں پورا خاندان ریت کی مانند ذرہ ذرہ کر دیتے ہیں۔ رشتے و جذبات کترنے کے فن میں طاق چوہے جوڑ توڑ البتہ خوب سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی کترنیں جمع ہو چکی ہوتی ہیں لیکن ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔
جن کی کترنیں یہ چوہے کاٹ کر لے جاتے ہیں ان کے زخم تو ناسور بن جاتے ہیں، اسی لیے تو چوہوں کو موذی سمجھا جاتا ہے۔ کئی چوہے خواب کترنے والے ہیں، کچھ امید، کچھ زندگی کی چمک اور کچھ چوہے اس کام پر مامور ہوتے ہیں کہ کترنیں ادھیڑتے رہیں تاکہ مجموعی صورت حال میں استحکام نہ آ سکے۔ "ذات دی کوڑ کرلی، شہتیراں نال جپھے" کی طرح یہ چوہے زمانوں کا فاصلہ طے کر کے کترنیں تھامے خود کو ہاتھی ثابت کرنے پر بضد رہتے ہیں۔
چوں چوں چوہا ایک نہیں بے شمار ہیں۔ انھیں اپنی دم کی فکر نہیں کترنے والے دانتوں پر ناز ہے۔ وہ قبر میں گڑے مردے بھی ادھیڑ سکتے ہیں۔ ادب میں چوہا سازی کی صنعت عروج پر رہی ہے۔ بے شمار کترنوں سے شعر جمع کیے جاتے ہیں۔ ریختہ نے بھی کئی ایسے چوہے بھرتی کر رکھے ہیں۔ خیر یہ ایک شعبہ کی بات نہیں۔ مقامات آہ و فغاں کی طرح چوہوں کے بھی بے شمار مقامات ہیں جہاں کترنیں جوڑنے کے لیے ایکٹویسٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ دم کا کیا ہے سر تو آزاد ہے۔ اس آزاد غلامی کی چمک دمک نے سب چندھیا رکھا ہے۔