Yehi To Zindagi Hai
یہی تو زندگی ہے
اللہ سائیں نے مجھے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ بیٹا مصطفٰی اور بیٹیاں شفق فاطمہ، افق فاطمہ اور مہک فاطمہ۔ میرے شوہر سرکاری ملازم تھے۔ محدود سے وسائل تھے۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ گھر اپنا تھا۔ اس لئے باعزت گزارا ہو رہا تھا۔ جب بڑی بچی چار سال کی ہوئی تو اسے گھر کے قریب ترین سکول میں داخل کروایا۔ شفق بچپن سے ہی سمجھدار، زمہ دار اور قدرے حساس طبیعت کی مالک تھی۔ جب دیکھتی کہ امی کو چھوٹی بہنیں تنگ کر رہی ہیں تو انہیں اپنے ساتھ کھلانے کےلئے میرے پاس سے لے جاتی، گھر کے کام کاج میں بھی میرا ہاتھ بٹاتی۔
اسی طرح کرتے کراتے اس نے پانچویں جماعت پاس کر لی، اللہ پاک نے مجھے بہت نیک اور لائق اولاد سے نوازا۔ اس کا سارا کریڈٹ بڑی بچی کو دونگی اگر آپکا بڑا بیٹا یا بیٹی ٹھیک ہیں، محنتی ہیں، فرمانبردار ہیں تو ننانوے فیصد امکان ہے کہ سارے بچے ایسے ہی ہوں گے۔ بڑی بیٹی بہت محنتی نکلی، میٹرک میں اس کے نمبر اتنے اچھے آے کہ ہم خود بھی حیران رہ گئےکیونکہ شفق گھر کے کاموں میں میری ٹھیک ٹھاک مدد کرواتی تھی جس وجہ سے پڑھائی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتی تھی۔ اس کے باوجود اس نے اچھا رزلٹ دے کر ہمارا دل خوش کر دیا۔
بیٹا اور چھوٹی دونوں بھی بڑی بہن کی دیکھا دیکھی بہت اچھا پڑھ رہی تھیں۔ شفق کالج میں گئی تو ایف اے میں اس نے پورے شہر میں پہلی پوزیشن لے کے پورے خاندان میں دھوم مچا دی۔ انہی دنوں کچھ لوگوں نے اس کے رشتے کےلئے کہنا شروع کر دیالیکن وہ ابھی مزید پڑھنا چاہتی تھی۔ اس کے اچھے رزلٹ کو دیکھتے ہوے ہم نے اسے پڑھنے کی اجازت دےدی۔ بی اے میں اس نے پھر ٹاپ کیاجو کہ حقیقتاََبہت بڑی کامیابی تھی۔ کیونکہ گورنمنٹ کالج سر گودھا میں ڈھیر ساری بچیوں کے درمیان بغیر کسی ٹیوشن کے گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹاتے ہوے ایسی کامیابی حاصل کرنا بڑی بات تھی۔
اب میں اس کی شادی کےلئے سنجیدگی سے سوچنا شروع ہو گئی تھی۔ فیملی کے اندر اور باہر سے بھی بہت لوگوں نے پیغامات بھجوانے شروع کر دیے تھےلیکن شفق ابھی مزید پڑھنا چاہتی تھی۔ ہم نے اس کی خواہش کو دیکھتے ہوے اجازت دےدی۔ شفق نے انگلش لٹریچر میں پنجاب یونیورسٹی سے چوتھی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا اور اس کے ساتھ ہی آنریری طور پہ وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھانا شروع ہو گئی۔ اس عرصے میں بیٹا بھی غلام اسحاق خان سے انجینئرنگ کر چکا تھا۔ اب ہر ماں کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ اللہ بیٹی کے نصیب کھولے اور بہترین لوگ ملوا دےیہ میری زندگی کا سب سے مشکل دور تھا۔
بچوں کی زندگیوں کے فیصلے کرنا مشکل ترین کا م ہے۔ ہم لوگ رشتے خاندان سے باہر نہیں کرتے تو میرے پاس بڑے محدود سے آپشن تھے۔ فیملی کے اندر سے جو رشتے آرہے تھے وہ سارے کے سارے دیکھے بھالے ہوے تھےلیکن میری extra ordinaryبیٹی کے ساتھ میچ نہیں کرتے تھے۔ کچھ لوگ امیر تھے لیکن ان کے بیٹوں کی تعلیم کم تھی، کچھ ویسے تو ٹھیک تھے لیکن دقیا نوسی تھے۔ قصہ مختصر کہ ایسا متوازن رشتہ کوئی نہیں آرہا تھا جیسا ہم لوگ چاہتے تھے۔ جس میں لڑکا پڑھا لکھا برسر ِروزگار ہو اور شریف گھرانا ہو۔
میری کزن نے مجھے بتایا کہ تم سورہ یٰسین کی آئت "سبحان الذی خلق الزواج "کو عشا کے بعد ایک تسبیح پڑھ کے دعا کیا کرو۔ میری دوست نے بتایا کہ، "یا فتاح" کا ایک لاکھ نکالوایک رشتے کی خالہ نے بتایا کہ" رب انزلنی منزلا و انت خیرالمنزلین "کی ایک تسبیح وقت مقررہ پہ پڑھ کے درس کیا کرو۔ غرض یہ کہ جو کچھ کسی نے بتایا سب میں نے پڑھا اور اللہ سے راتوں کو اٹھ اٹھ کے دعائیں مانگی لیکن ابھی کوئی وسیلہ نظر نہیں آرہا تھا۔ حتیٰ کہ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ میں شفق کو ہی ڈانٹ دیتی کہ تمھارے کیا نصیب ہیں جو کہ کھلنے میں ہی نہیں آرہے؟ اللہ مجھے معاف فرمائے۔
بہر حال لمبی بات کیا کرنی مختصرا ََیہ کہ میں اس نتیجے پہ پہنچی کہ ایک فی صد بچیوں کے رشتے ان کے معیار کے مطابق ہوتے ہیں، پورے سو کبھی نہیں مل سکتے۔ کسی نہ کسی بات پہ سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ گھر میں ایک فریق یا اماں یا ابا کا فیصلہ ہو اور دوسرا فریق اس کے حق میں باقی گھر والوں کو ہموار کرے۔ اس کے بعد میں نے اپنی ترجیحات کو سیٹ کیاجن کے مطابق ہمیں صاف ستھرا لڑکا چاہئے جس کی تعلیم اچھی ہو، بری عادت کسی قسم کی نا ہو اور ماحول کا زیادہ فرق نہیں ہویعنی ہم نے دولت اپنی آخری ترجیح رکھی۔ اس کے بعد جو رشتے آئے ہوے تھے ان کو اپنے معیار پہ رکھا تو میری کزن کا بیٹا اس پہ پورا اتر رہا تھا۔
جو کہ غریب ترین گھر کا شریف سا بچہ تھا۔ جب ہم نے اس رشتے کےلئے ہاں کی تو ایک دفعہ ہماری شدید ترین مخالفت ہوئی۔ ہمارے پورے خاندان نے ہم پرسخت اعتراضات کئے لیکن ہم دونوں میاں بیوی کی راۓ ایک تھی۔ اس لئے ہم نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور سال کے اندر اندر بچی کی شادی کر دی۔ ہماری بیٹی جاب کر رہی تھی جبکہ اس کا خاوند مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھادوسال شفق کے بہت مشکل تھے اس دوران اللہ نے اس کو چاند جیسا بیٹا دےدیا۔ دوسری مرتبہ مقابلے کے امتحان میں میرا داماد کامیاب ہو گیا اور سول سروس میں آ گیا۔ ماشااللہ۔
کچھ عرصہ مشکل تھا جو کہ گزر گیا۔ جو والدین کی حیثیت سے ہم بیٹی کی مدد کر سکتے تھے وہ ہم نے کی باقی ان دونوں کی اپنی جدوجہد ہے۔ دوسری بیٹی نے ڈبل میتھ کے ساتھ بی ایس کیا، پھر ایم ایس۔ ساتھ ہی اس کی گورنمنٹ جاب ہو گئی اس کے لئے بھی ہماری سوچ یہی تھی کہ دولت سے زیادہ تعلیم اور تربیت ضروری ہیں۔ اللہ کا شکر کہ بہن کا بیٹا سکالرز شپ پہ باہر سے پڑھ کے آیا تو انہوں نے بڑی محبت سے تختہ مانگا۔ اس دفعہ بھی سب نے بہت اعتراضات کئے کہ کراے کے گھر میں بیٹی بیاہ کے دےدی لیکن ہماری دونوں میاں بیوی کی سوچ ایک تھی۔
جہاں لڑائی جھگڑا نا ہو، بزرگوں کا احترام ہو وہاں رحمت کے فرشتے آ جاتے ہیں۔ اس دفعہ بھی اللہ کی رحمت سے داماد کو پاکستان آتے ساتھ اچھی جاب مل گئی۔ ساتھ ہی کمپنی کی طرف سے گھر بھی مل گیا الحمداللہ افق بھی اپنے گھر میں خوش باش ہے۔ بیٹا غلام اسحٰق خان سے پڑھ کے نکلا تو ساتھ ہی جاب شروع ہو گئی۔ دوسال جاب کر کے اس نے MBA یو کے سے کیا۔ میں نے اپنی فیملی کی پڑھی لکھی سلجھی ہوئی یتیم بچی سے اس کی شادی کر دی۔ بیٹے کی جاب ایسی ہے کہ پندرہ دن پاکستان میں رہتا ہے اور پندرہ دن پاکستان سے باہر، بہو بہت پیاری فطرت کی مالک ہے۔ ہر وقت ہنستی ہنساتی رہتی ہے۔
میں اور میرے شوہر زندگی سے بہت مطمئن ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی کی منگنی ہو چکی ہے۔ لڑکا آرمی میں کپتان ہے۔ بیٹی کا MBBS کا آخری سال چل رہا ہےیہ مضمون صرف ان بہنوں کیلئے لکھا جو کہ آجکل بچوں کی شادیوں کیلئے پریشان ہیں۔
اللہ میرے بچوں کو ہر بری نظر سے بچاے اور ہر ماں کو اولاد کے سکھ دیکھنا نصیب فرماے۔