Pakistan Ke Sare Shehro, Zinda Raho Painda Raho
پاکستان کے سارے شہرو، زندہ رہو پائندہ رہو
یہ 1965 کا زمانہ اور ستمبر کا مہینہ تھا۔ ملک پہ جنگ کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ہمارے گھر کے باہر کھلی جگہ پہ مورچے کھودے جا چکے تھے۔ دن میں تین، چار مرتبہ سائرن بجتا اور بھاگ کے مورچوں میں پناہ لینے کی مشق کروائی جاتی۔
رات میں بھی مشق کروانے کیلئے بلیک آؤٹ کیلئے سائرن بجتا اور ہم سب گھر کی ساری بتیاں بند کر دیتے۔ یہاں تک کہ ابا جی اپنی سگریٹ بھی بجھا دیتے۔
ایک دن میں نے ابا جی سے پوچھا کہ، ابا جی سگریٹ سے کیا ہوتا یہ تو بہت چھوٹی سی روشنی ہوتی ہے؟ تو ابا نے بتایا، بیٹا جنگ کے دنوں میں، جب رات کو سگریٹ جتنی بھی روشنی ہو تو وہ آسمان پہ اڑنے والے جنگی طیاروں کیلئے پیغام رساں بن سکتی ہے اور کسی خاص مقام کی نشان دہی کر سکتی ہے۔
اسلئے جب بلیک آؤٹ کا سائرن بجے تو مکمل تاریکی میں ہی ہم سب کا فائدہ ہے۔ ہم لوگ سو رہے تھے جب اچانک باہر شور مچ گیا۔ حملہ ہو گیا، حملہ ہو گیا۔
ساتھ ہی سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ ساری کالونی ایک دم اندھیرے میں ڈوب گئی۔ میں بھی امی کا ہاتھ پکڑے دوڑتی ہوئی آئی اور آ کے مورچے میں بیٹھ گئی۔ بڑی بہن کو بھائی نے پکڑا ہوا اور وہ بھی آ کے مورچے میں میرے ساتھ بیٹھ گئی۔
مورچہ، انگریزی حروف تہجی میں L کی شکل میں زمین پہ کھدی ہوئی ایک قبر جیسا، دو اطراف کو جاتا ہوا گڑھا سا ہوتا ہے۔ بھائی ہمیں مورچوں میں چھوڑ کے خود مزے سے باہر کھڑے ہو گئے۔
لیکن ہم دونوں بہنیں بھی بھائیوں کے پیچھے مورچے سے باہر نکل آئیں اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر جنگی طیاروں کی لڑائی شروع ہو گئی۔
ہم نے وہ لڑائی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی جب آسمان پر جنگی طیارے کھلونوں کی طرح آپس میں گڈمڈ ہو رہے تھےتھے۔ اماں مسلسل ہم بہن بھائیوں کو مورچوں میں آنے کا کہ رہی تھیں اتنی دیر میں انڈین لڑاکا طیارے ناکام ہو کر بھاگ گئے۔
میرے بھائیوں سمیت کالونی کے تمام لڑکے سڑکوں پہ نکل آۓ اور اللہ اکبر اور نعرہ حیدری، یاعلیؑ، کے نعروں سے کالونی گونج رہی تھی۔ یہ شاہینوں کا شہر، سرگودھا، ہے۔
جنگ کے دنوں میں سرگودھا کے لوگوں کے جذبے جوان، ضمیر زندہ اور باہمی ہمدردیاں عروج پہ تھیں۔ سب لوگ ایک دوسرے کا بازو بن کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔
ریڈیو پر سارا دن قومی ترانے گونجتے تھے۔ جن کی دھنیں، آواز اور الفاظ خون کو گرما دیتے تھے۔
"ساتھیو مجاہدو، جاگ اٹھا ہے یہ سارا وطن۔ "
نور جہاں کے گائے ہوئے ترانے۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبدی پھریں، بازار کڑے
اور
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
"میریا ڈھول سپاہیا، تینوں ربّ دیاں رکھاں۔ "
نسیم بیگم کا گایا ہوا ترانہ۔ "اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔ "
سرگودھا کے گلی کوچوں میں گونج رہے ہوتے تھے۔
مجھے آج تک سمجھ نہ آئی کہ کیسے وہ جذبے تھے کہ لڑکے تو لڑکے تھے ہم چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کا بھی بس چلتا تو جا کے پہلی صفوں میں جنگ لڑتے اور پاکستان کے ایک ایک چپے پہ اپنی سو سو جانیں قربان کر دیتے۔
بلڈ بینک میں خون عطیہ دینے والوں کی لمبی قطاریں ہوتیں۔ سرگودھا شہر کے باسیوں نے اپنے دن رات ایک کر دیے ملک اور وطن کی حفاظت کیلئے۔
میرا شہر نگاراں
میرا کوچہ یاراں
میرا شہر دلبراں
میرا پیارا سرگودھا
جسکو میری آنکھوں کے سامنے شاہینوں کا شہر کے نام سے نوازا گیا۔ جسے 1965 کی جنگ کے بعد "نشان استقلال، اور صدارتی ایوارڈ سے نوزا گیا۔ "
یاد رہے پاکستان میں ابھی تک لاہور اور سیالکوٹ کے علاوہ یہ اعزاز صرف سرگودھا کے حصے میں آیا ہے۔
ایم ایم عالم جنہوں نے تیس سیکنڈ میں دشمن کے 5 جہاز مار گرائے اور انکا یہ ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا ان کا تعلق بھی سرگودھا سے تھا۔
1903 میں آباد ہونے والے شہر سرگودھا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک سادھو، "گودھا، جو کہ گول کھوہ والے مقام میں رہائش پذیر تھا، کے نام پہ اسے سرگودھا کہا جاتا ہے۔ یہ شہر پاکستان کے ان چند شہروں میں سے ہے جنہیں باقاعدہ نقشے اور پلاننگ کے ساتھ آباد کیا گیا تھا۔
سرگودھا کو پاکستان کا کیلیفورنیا بھی کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک زرعی شہر ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے اعلیٰ درجہ کا مالٹا پایا جاتا ہے۔ گنا، کپاس، دالیں، ہر قسم کی سبزیاں، کینو، موسمی، آم، جامن، بیر اور دریائے جہلم والی طرف ریتیلے علاقے میں چنے، گوارہ بکثرت کاشت کئے جاتے ہیں۔
سرگودھا شہر کی سات تحصیلیں ہیں۔ ساہیوال، سلانوالی، سرگودھا، کوٹ مومن، شاہپور، بھیرہ اور بھلوال۔ سرگودھا کا رقبہ 5854 کلومیٹر ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو قیامت تک آباد رکھے اور پاکستان کے سارے شہروں کو زندہ و پائندہ رکھے۔