Oman Diary (6)
عمان ڈائری ( 6)
آج السوادی بیچ جانا تھالیکن آج سے چھوٹے بچوں کے سکول اور بڑے بچوں کے آفس کھل چکے تھے۔ صبح جب بچے سکول جارہے تھے تو میں ابھی فجر کی نماز کے بعد دعا مانگ کر فارغ ہوئی تھی۔ میں نے آواز لگائی کہ" بچو مجھے مل کر جانا، جس کے جواب میں میرے نواسے نے بیگ اٹھا کر باہر کو دوڑ کر جاتے ہوئے کہا" I am getting late but I love you amna، جبکہ نواسی بھاگ کر آ کر گلے ملی، مجھے پیار کیا۔
مجھے لگتا ہے کہ لڑکے عموماً اپنی سوچ رکھتے ہیں اور اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کرتے ہیں، جبکہ لڑکیاں بچاری ہروقت ماں باپ، بھائی بہنوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں - چاہے اس میں خود کو ڈانٹ ہی پڑ جائے۔ خیر یہ تو ویسے یاد آ گئی اس دن کی بات تو لکھ دی۔ بیچ پر 3 بجے کے بعد جانا تھا۔ بچوں کے سکول سے 1/30 بجے چھٹی ہوجاتی تھی، جبکہ بڑوں کے آفس سے 3بجے، اس وقت کو گزارنے کیلئے مہمان بیٹی نے دوپہر کا کھانا بنانا شروع کردیا۔
میں نواسے اور نواسی کے ساتھ پا پٹ کھیلنا شروع ہو گئی۔ آج کافی دنوں کے بعد ٹائم ملا، تو پاکستان میں سب سے بات کی۔ بچے ڈیڑھ بجے گھر پہنچے تو انہیں کھانے کے بعد تھوڑی دیر کیلیے سونے کیلئے بھیج دیا۔ میں بھی ان کے قریب ہی نماز پڑھ رہی تھی اور بچے آہستہ آواز میں آپس میں باتیں کرنا شروع ہو گئے، نا چایتے ہوئے بھی ان کی باتوں کی آوازمجھے آرہی تھی۔
"بیچاری امنہ، پتہ نہیں ان کے پاس پیسے ہوں گے یا نہیں؟ ؟ یہ نواسی کی آواز تھی۔" آپی آپ کے پاس تو پاکٹ منی والے پیسے پڑے ہیں نا۔۔ آپ امنہ کو دےدیں، میرا نواسہ اپنی بہن کو کہ رہا تھا، "امنہ کو تو کم از کم 20 ریال چاہیے ہوں گے، میرے پاس سے خرچ ہو گئے تھے شاید 6 ریال پڑے ہوں گے، نواسی کی دکھی سی آواز آئی۔ نماز ختم کی تو تفتیش شروع کی کہ یہ کیا باتیں ہو رہی ہیں اور مجھے کیوں پیسے چاہئیں اور کیا مجھے بچے اتنا ہی غریب سمجھتے ہیں کہ میرے پاس سے انہیں 20 ریال کی بھی امید نہیں۔
تفتیش کے بعد کہانی یہ پتہ چلی کہ سب سے چھوٹا ڈیڑھ سالہ نواسہ، جس کو میں بہت یاد کرتی تھی اور جو مجھے اپنی پیدائش کے بعد اب پہلی مرتبہ ملا اس نے میری سائیڈ ٹیبل کی دراز کھول کر وہاں سے میری پڑھنے والی عینک کی پہلے ایک ٹانگ توڑی، پھر بچوں نے اس سے عینک چھین کر واپس رکھی، وہ موقع کی تلاش میں رہا اور جب اس نے دیکھا کہ سب مصروف ہیں تو پھر عینک نکال کر دوسری ٹانگ بھی توڑ دی اور انہیں ڈسٹ بن میں ڈال دیا تھااور یہ کہ اب آپ کے پاس 20 ریال نہیں ہوں گے تو آپ کیسے نئی عینک لیں گی۔
کیونکہ اس ٹوٹی ہوئی کے تو بروکن پارٹس بھی پھینک دیے تھے چھوٹو نے، میری عینک تو میری آنکھیں ہیں اور ان کے بغیر واقعی مجھے مسئلہ ہونا تھا اگر میں ایک فالتو عینک ساتھ نہ لیکر گئی ہوتی۔ خیر اب میں نے بڑے بچوں سے پوچھا کہ 20 عمانی ریال کے پاکستانی کرنسی میں کتنے پیسے بنیں گے، تو معلوم ہوا کہ 1 عمانی ریال تقریباً 450 پاکستانی روپوں کا ہے، اچھا تو تبھی بچے پریشان تھے لیکن میں پریشان نہیں ہوئی تھی البتہ عمانی کرنسی کی قیمت سن کر میں حیران ضرور ہوئی تھی۔
تقریباً تین بجے گھر سے نکلے، السوادی ساحل پر پہنچے تو یہاں حدیقۃ الریام (اس کا زکر آگے آئے گا) جیسے پارک، گھاس، کھانے پینے کے انتظامات تو نہیں تھے۔ لیکن ریتیلے ساحل پر بچوں کیلئے جھولے، بڑوں کے بیٹھنے کیلئے بنچ اور واش روم موجود تھے۔ سمندر کے ساتھ ساتھ دور دور تک پھیلا ہوا ساحل نہایت پرسکون نظر آرہا تھا۔ بچوں کو جھولوں پر چھوڑ کر ان کے والدین نے ساحل پر خوب تصاویر بنائیں۔ یہ ساحل بھی بہت سادہ تھا مگر دل کو بہت لبھا رہا تھا۔
اب ہمارے پاس دن کم تھے۔ اس لئے ہم لوگوں نے کچھ ٹائم یہاں گزارنے کے بعد حدیقۃ الریام کیلئے نکلنے کا پروگرام بنا لیا، یہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی سمندر نظر آنا شروع ہو چکا تھا۔ ایک بہت بڑا اسٹیمر سمندر میں دور سے دکھائی دے رہا تھا۔ بچے بہت پر جوش ہو رہے تھے سمندر کو دیکھ کر، لیکن ہم لوگوں نے بیچ کے ساتھ موجود پارک میں رکنا مناسب سمجھا۔ یہاں بہت زبردست گھاس، لان جھولے اور رنگ برنگے لوگ تھے۔
عربی، انڈین، پاکستانی، بنگالی، فلپینو، انگریز لوگ جابجا نظر آرہے تھے، یہاں بہت اچھی بیٹھنے کی جگہیں۔ کھانے پینے کیلئے اچھا انتظام، اور صاف ستھرے واش روم تھے۔ کچھ انڈین بچیوں کی ڈریسنگ بہت ہی مختصر تھی۔ انگریز لوگ اپنی فیمیلز کے ساتھ تھے۔ یہاں کی سب سے زیادہ اچھی بات یہ تھی کہ ہر بندہ اپنے آپ میں مگن تھا۔ کوئی کسی کو گھور نہیں رہا تھا۔ لڑکے ساحل کی طرف چلے گئے بچے بھاگ بھاگ کر مختلف جھولوں پر جارہے تھے۔ لڑکیاں تصاویر بنانے میں مصروف ہو گئیں۔
تھوڑی ہی دیر گزری کہ سلائیڈ والی جگہ پہ کچھ شور ہوا اور لوگ بھاگ کر ادھر گئے، یہ سلائید ہر طرف سے بند تھی اور بل کھاتی ہوئی نیچے آرہی تھی، میں بھی گئی تو ہمارے دونوں سب سے چھوٹے بچے اکھٹی سلائیڈ لے رہے تھے اور درمیان میں جا کر پھنس گئے تھے، اندر سے بچوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ کوئی راستہ کوئی طریقہ بظاہر نظر نہیں آرہا تھا کہ بچوں کو نکالا جاسکےشاید آدھا منٹ یا اس سے بھی کم وقت لگا ہوگا۔
اس کے بعد پتہ نہیں کیسے بچے الگ ہوئے تو پہلے چھوٹا پھسلتا ہوا اور پھر بیٹی بھی باہر آگیی، یہ آدھا منٹ میرے لئے شاید گھنٹوں کے برابر تھا۔ بس کسی دعا نے بچوں کو بچا لیا تھا۔ جب یہاں سے واپس گھر کیلئے نکلے تو سوچا کہ راستے سے ہی کچھ کھا لیا جائے۔ طے یہ ہوا کہ راستے میں ایک شوارما اور تکہ پوائنٹ ہے، جہاں کا تکہ اور شوارما بہت مشہور ہے، وہاں سے مٹن تکہ کی سیخیں اور ساتھ شوارما لے لیں، گاڑی میں ہی کھانا کھایا جائے اور تھوڑی لمبی ڈرائیو لیتے ہوئے واپسی پر "خان مقہی، سے چائے پیتے ہوئے گھر جائیں گے۔
ابرہ (شہر کا نام) میں سلیمان شوارما پوائنٹ، چائنا ڈریگن مال کے بالکل سامنے ہے۔ وہاں پہنچے تو ایک لڑکا بھاگا ہوا آیا اور آکر بڑی محبت سے بیٹے سے ملا اور آرڈر لیکر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد بیٹے نے بتایا کہ یہ میرے کولیگ فیصل بلوشی کا بیٹا ہے۔ ابھی کالج میں پڑھائی کررہا ہے اور سیکنڈ ٹائم اپنا یہ کام کرتا ہے۔ گھر میں تین تین گاڑیاں کھڑی ہیں، لیکن وہ اپنی مرضی سے یہاں اپنا ذاتی کام کررہا ہے اور اچھا خاصا کما رہا اور پڑھائی میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔
مجھے حیرت اور خوشی ہوتی ہے جب دوسرے ممالک کے بچوں کو اتنی محنت اور ایمانداری سے کام کرتا دیکھتی ہوں۔ اللہ پاک ہمارے بچوں کو بھی عقل اور سمجھ دیں کہ کوئی بھی کام جو حق حلال کا رزق حاصل کرنے کیلئے کیا جائے وہ برا نہیں ہوتا۔