Oman Diary (3)
عمان ڈائری( 3)
(محترم ساتھیو! یہ میری یادداشتیں ہیں نا کہ سفر نامہ، شائد سفر نامہ میں کچھ اور لوازمات ہوتے ہیں جو اس قسط وار تحریر میں نہیں ہیں، لیکن یہ آپ سب کی دلچسپی کیلئے لکھا ہے، امید ہے آپ کو بھی اچھا لگے گا، مجھے آپ سب کی رائے کا انتظار رہتا ہے۔)
گھر جاتے ہوئے راستے میں دیکھا کہ عمان میں عموماً گھروں کا رحجان پاکستان کے پوش علاقوں جیسا ہےکھڑکیاں بھی پاکستانی انداز سے لگی ہوئی ہیں، نہ زیادہ اونچی نہ زیادہ نیچی(سعودیہ میں کھڑکیاں بہت اونچائی پر ہوتی تھیں)چاروں طرف جگہ کھلی اور درمیان میں گھر بنا ہوا۔
سڑکوں کے ارد گرد کیکر اور کھجور کے درختوں کے علاوہ بھی مختلف اقسام کے درخت نظر آرہے تھے۔ سڑکیں کھلی اور فضا صاف عمانی لوگ منکسرالمزاج عموماً اردو، انگریزی اور کئی مرتبہ پنجابی بھی بول اور سمجھ لیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ سعودی لوگوں کی نسبت یہاں کے لوگ زیادہ دوستانہ رویہ رکھنے والے ہیں۔ گھر پہنچی تو میں بچوں کو دیکھ کر حیران، ماشااللہ بڑے ہو گئے تھےاور بچے مجھے دیکھ کر پریشان، نانی بوڑھی ہو گئی تھیں۔
اب میرا تھکن سے برا حال تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد 9 سالہ نواسی زیتون کا تیل لیکر آ گئی۔ پہلے اس نے میرے پاؤں کے نیچے تولیہ بچھایا، پھر اس نے دونوں پاؤں کی باری باری مالش کی، یہ بہت پیارا تجربہ ہے کہ جس بچی کی ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے میں دھوپ میں ڈال کر رگڑ،کر مالشیں کرتی تھی اب وہ میری خدمت کررہی تھی۔ جن ننھی جانوں پر میں نے محبتیں لٹائی تھیں وہ ابھی سے میری محبتوں کے بدلے لوٹا رہی تھیں۔ نواسی میرے سے کروشیا سیکھنا چاہتی تھی اور میرے واپس آنے تک سیدھی زنجیر بنانا شروع کر چکی تھی۔ اب میرا کروشیا اور دھاگے اس کے پاس ہیں اور میں یہاں پاکستان میں اس کی کارکردگیوں کی منتظر ہوں۔
پہلے دن نماز کیلئے اٹھی تو نواسی میرے سے پہلے اپنے لئے جائے نماز ڈال رہی تھی۔ میں نے بھی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اسی کے مطابق جائے نماز ڈال لی۔ اچانک بچی جائے نماز سے اتری اور تھوڑا سا اس کا رخ تبدیل کیا۔ میں نے بھی اپنی جائے نماز کا رخ تبدیل کیا۔ ابھی میں نماز شروع کرنے ہی لگی تھی کہ نواسی نے جائے نماز سے اتر کر اس کا رخ پھر تھوڑا مزید تبدیل کیامیں نے بھی اس کی تقلید میں تھوڑا سا جائے نماز کا رخ تبدیل کیااور جب پھر تیسری مرتبہ اس نے جائے نماز کو سیٹ کیا تواب میں ہنسنا شروع ہو گئی اور بچی بیچاری شرمندہ۔ پھر میں نے سمجھایا کہ اللہ مہربان ہیں تم اپنی کوشش کرو کہ سب کچھ ٹھیک کر سکو اور اللہ سے قبولیت کی دعا کرو اور امید رکھو کہ تمہاری نمازیں قبول ہونگی، اتنی فکر مت کرو۔
میرے پہنچنے کے اگلے دن منجھلی نے بھی اپنے شوہر اور دونوں بچوں کے ساتھ دبئی سے آنا تھا۔ 12 بجے جب وہ گھر پہنچے تو ہم ماں بیٹیاں ایک دوسرے کو مل کر بہت روئے، چھوٹے بچوں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ سب سے چھوٹے والا اپنے سے چھ مہینے بڑے والے کو" بے بی، کہ رہا تھا اور بڑے والا اپنے سے چھوٹے کو اپنے کھلونے دے کر اسے گلے ملنے کی کوشش کررہا تھا، جب بچے کھانا ختم کر چکے تو بیٹی اور داماد کو اٹھایا کہ آپ بھی جاکر لیٹ جائیں۔ لیکن داماد نے کہا"میں ابھی نہیں جارہا، میں نے تھوڑی دیر کے بعد پھر اٹھایا کہ آپ بھی کل سے بھاگ دوڑ میں ہیں جا کر تھوڑا ریسٹ کرلیں۔
جس پر داماد نے کہا" نہیں، پہلے بیگم سونے کیلئے چلی جائےابھی بچے کھیل رہے ہیں زرا ان کا خیال رکھوں گا، ادھر بڑی بیٹی کے شوہر نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا"ہاہاہاہاہاہا، یعنی تیرا غم، میرا غم اک جیسا صنم، آپ بھی میری طرح بیگم کو سلا کر خود بچوں کی خبر گیری کریں گے، اور پھر دونوں لڑکے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کے دل کھول کر ہنسےتھوڑی دیر کے بعد ہم تینوں ماں بیٹیاں بچوں کو ساتھ لے کر بچوں والے کمرے میں آگئیں۔
مجھے چارجر چاہیے تھا۔ جب میں لڑکوں والے کمرے میں آئی، تو دو عدد مظلوم لڑکے خراٹوں کے ساتھ مشترکہ غم منارہے تھے۔ اب جبکہ بچے اکھٹے تھے تو انہوں نے اگلے ایک ہفتے کا پروگرام ترتیب دیا، جس کے مطابق ایک دن وادی الحوقین کیلئے تھا۔ دوسرا دن جما صحرا، تیسرا دن السیب کارنش۔ چوتھا دن عین الکسفہ رستاق اور پانچواں دن السوادی بیچ (پارک) کیلئے تھااور ان سارے پروگراموں میں کھانا گھر سے بنا کر ساتھ لے جانا تھا۔
دبئی والوں نے ہوٹلنگ اور مالز پر جانے سے معذرت کر لی تھی، اس لئے مالز، شاپنگ ہوٹلنگ وغیرہ کے سارے پروگرام ان کے واپس جانے کے بعد صرف میرے لئے کیلئے رکھے گئے۔ پہلے صبح جب دبئی والی 4 سالہ نواسی نے اپنے کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی سے ڈھیر ساری چڑیوں کو براہ راست دیکھا اور ان کی چہچہاہٹ کو سنا تو بہت خوش اور حیران" ماما، ماما وہ دیکھیں چوچو، اس نے اس سے قبل چڑیاں غالباً صرف ٹی وی پر کارٹون فلموں میں دیکھی تھیں۔
عمان کی صبح بہت پیاری ہوتی تھی۔ ہمارے گلابی جاڑوں جیسی۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے ایک عمانی کا " مزرعہ، جسے ہماری زبان میں ڈیرہ کہتے ہیں، موجود تھا، وہاں بکریاں، مرغیاں فصلیں اور سبزیاں وغیرہ لگی ہوئی تھیں، صبح صبح 7 یا 8 مختلف مقامات سے پانی دھاروں کی شکل میں اوپر سے نیچے زمین کی طرف ساری فصلوں کو سیراب کررہا ہوتا تھا۔ دائیں اور بائیں والے دونوں گھروں میں عمانی گھرانے رہتے تھے۔ ان کے گھروں سے صبح صبح مرغوں کی ازانیں سنائی دیتی تھیں، چڑیاں، فاختہ، وغیرہ صبح سویرے خوب، شور مچاتی تھیں۔
آپ لوگ سوچیں گے کہ یہ کون سی خاص بات ہے بتانے والی، دراصل غیر ارادی طور پر میں ہر بات میں سعودیہ سے تقابل کررہی تھی تو سعودیہ میں جس علاقے میں ہماری رہائش تھی وہاں موسم بہت خشک اور شدید تھااور وہاں پرندے بہت کم نظر آتے تھے۔ البتہ مسجد نبوی میں کبوتر اور اللہ کے گھر میں کبوتر اور ابابیلیں بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی تھیں۔ یہاں ہر گھر میں سبزہ ہے حتی کہ ہمارے اپنے گھر میں ٹماٹر اور خربوزے لگے ہوئے تھے۔ ایک دن میں نے بچوں کے ساتھ مل کر 5 خربوزے توڑے اور ہم سب نے کاٹ کر کھا لئے، بھئی گھر کی فصلوں کی تو کیا ہی بات ہے۔
پہلے دن وادی الحوقین کیلئے نکلے، یخنی پلاؤ، کباب، کولڈ ڈرنک، چائے کیک وغیرہ ساتھ ہی تھے۔ وادی الحوقین تقریباً پونے گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ آیت الکرسی پڑھ کر سفر شروع کیا، سارا رستہ سڑکیں صاف ستھری اور ہموارتھیں، وادی میں پہنچے تو بیٹھنے کیلئے ایک ایسی جگہ منتخب کی جہاں پہاڑوں کے اوپر سے پانی آبشار کی صورت گررہا تھا، جاتے ساتھ ہی میں بچوں کے ساتھ پانی میں چلی گئی، کسی کسی جگہ پر مچھلیوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے جھنڈ جنہیں ہم اپنی پنجابی میں "پونگ" کہتے ہیں نظر آرہے تھے۔
میں نے بیٹے سے کہا کہ یہ مچھلی کے بچے کتنے بہادر ہیں انسانوں سے زرا نہیں ڈر رہے" آپ تھوڑی دیر پاؤں لٹکا کر بیٹھیں تو یہ آپ کے پاؤں کا پیڈی کیور بھی کردیں گے، تھوڑی دیر کے بعد میں گھر سے لائی یوئی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی اور اِدھر اُدھر جائزہ لیا تو دیکھا کہ کچھ لوگ بار بی کیو کیلئے لکڑیاں جلا رہے تھے۔ ایک انڈین فیملی تصویریں لینے میں مگن تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک بڑی اور شاندار گاڑی آک رکی، وہاں سے جو مرد حضرات نکلے انکے سروں پر سعودی سٹائل کے رومال رکھے تھے، لیکن ان کے سروں کے پیچھے سے گردن سے نیچے تک کالے فیتے لٹک رہے تھے، جیسے ہمارے ہاں عورتوں کے گردن کے زیورات کے ساتھ پیچھے کمر ہر فیتے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ بچوں نے بتایا کہ یہ لوگ قطر سے ہیں، اب میں مزید گھومنا نہیں چاہتی تھی اس لئے اپنے پرس سے اون سلائیاں نکال کر نٹنگ شروع کردی۔
تھوڑی دیر میں بچے تھک کر آئے تو بھوک بھوک کا شور مچایا ہوا تھا۔ لڑکیوں نے دسترخوان پر کھانا لگا دیا اور ہم سب نے ایک زبردست لنچ کیا، اس کے بعد چائے اور کیک وغیرہ آگئے۔ جب سورج ڈھلنا شروع ہوا تو ہم نے واپسی کی تیاری پکڑ ی۔ بچوں نے گاڑی کی چھت کھلوا کر ہوا سے تھوڑی دیر لطف اندوز ہوئے اور اس کے بعدتھک کر بیٹھ گئے اور اپنی اپنی پسند کے گانوں کی لسٹ بابا کو بتائی اور گاڑی میں ایک دوسرے چھینا جھپٹی کرتے۔ بمشکل سیٹ ہوئے۔ اگلے دن رستاق، عین الکسفہ جانے کا پروگرام راستے میں ترتیب دیتے ہوئے گھر پہنچے۔
جاری ہے۔