Oman Diary (2)
عمان ڈائری(2)
اسلام آباد ائر پورٹ پہنچے تو ٹھنڈی ہوائیں مری کے پہاڑوں سے گلے مل کر، آکر یہاں موجود لوگوں سے گلے مل رہی تھیں۔ سردی دانت بجا رہی تھی، میں واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔ گاڑی کا ہیٹر مسلسل کام کررہا تھا۔ میں نے جلدی سے اپنی کندھوں والی چھوٹی شال جو کہ اسی سال نومبر میں ہماری شادی کی سالگرہ پر مجھے سرتاج نے گفٹ کی تھی نکال کر کندھوں پر پھیلا لی، مجھے گاڑی میں ہی چھوڑ کر سرتاج نےپورٹر کی تلاش شروع کر دی۔
ہمیں ایسا پورٹر چاہیے تھا جو میرا سامان وزن کروا کے ریپنگ کروانے کے بعد اور بورڈنگ امیگریشن وغیرہ کے تمام مراحل میں بھی میرے ساتھ ساتھ رہے، جب گاڑی سے نکلنے لگی تو بیٹے نے ہاتھ پکڑ کر مجھے سہارا دیکر گاڑی سے نکلنے میں مدد کی، مجھے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا۔ پتہ نہیں کیوں اس مرتبہ جانے کے وقت میں بہت اداس تھی، سرتاج نے جب مجھ سے الوداعی ہاتھ ملایا تو میرے آنسو نکل پڑےحالانکہ اس سے دو ہی ہفتے پہلے چھوٹا بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ ایک سال کے لئے مجھ سے دور جارہا تھاتو میں نے بڑے حوصلے کے ساتھ اسے رخصت کیا تھا۔
لیکن اس مرتبہ میرا دل شائد اس لئے دکھی تھا کہ اس سے پہلے میرے ہر ایک سفر میں میرا عمرہ کرنا شامل ہوتا تھا۔ اب عمان کاسفر تو ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے
امباں دے بھلاوے
پاندی اکاں نوں کلاوے
متے، امباں دی بو آوے
یہ میرا چوتھا ایسا سفر تھا جو کہ بالکل تنہا کرنے جارہی تھی۔ لیکن آج مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں نے کس لائن میں شامل ہونا ہےپورٹر سے پوچھا تو اس نے سامنے اشارہ کیا کہ ادھر جانا ہےاور خود اپنی رقم لے کر وہاں سے چلا گیالیکن جب میں اس طرف گئی تو مجھے لوگوں نے بتایا کہ پہلے آپ نے ادھر نہیں بلکہ دوسری طرف جانا ہےپورٹر کا فون نمبر احتیاطً بیٹے نے مجھے دیدیا تھا، اسے کال کر کے میں نے کہا"بیٹا:آپ نے میرے ساتھ صحیح نہیں کیا۔ جبکہ آپ کے ساتھ طے تھا کہ جب تک میں خود نہ کہ دوں کہ اب آپ جائیں تب تک آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔
خیر وہ پھر سے آیا جلدی جلدی مجھے درست لائن میں کھڑا کیا اور چلتا بنا، بہرحال اس دن مجھے بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ امیگریشن کے بعد مجھے گیٹ نمبر 3 پر جانا تھا۔ گیٹ نمبر 3 تک جانے کیلئے میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا کہ جس سے کچھ رہنمائی لے لیتی اور جو لوگ اسلام آباد ائر پورٹ کے گیٹ نمبر 3 سے کبھی جہاز پر بیٹھنے کیلئے گئے ہوں تو انہیں علم ہو گا کہ وہ کتنا دور ہےخیر چلتے چلتے چلتے چلتے جب ائرپورٹ کی بلڈنگ کے آخری حصہ تک پہنچی تو وہاں سے پھر مجھے سیڑھیاں اتر کر نیچے والے حصے میں جانا تھااور جب متعلقہ جگہ تک پہنچی تو وہاں نہ آدم نہ آدم زادالبتہ کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔
میں نڈھال ایک کرسی پر گر گئی، فلائٹ کا وقت صبح 5 بجے کا تھا اور اس وقت 3 بج رہے تھے۔ اب یہ وقت کیسے گزرے؟ رات کے اس پہر سہیلیاں تو سو رہی ہوں گی اور بچوں سے سارا راستہ باتیں کرتی ہوئی آئی تھی۔ اوپر سے موبائل کی چارجنگ ختم ہونے کا بھی خطرہ تھا، تقریباً 4 بجے تک لوگ آنا شروع ہو چکے تھے، ایک لڑکی جس کے ساتھ ماشااللہ اس کے چار بچے تھے وہ میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔
اس سے پوچھا کہ بیٹا آپ بھی عمان جارہی ہیں۔ مجھے ابھی تک اپنے اپ پر شک ہی تھا کہ شاید میں غلط جگہ پر بیٹھ گئی ہوں۔ جب تسلی ہو گئی کہ یہاں سے ہی عمان جانے والے پی آئی اے کے جہاز کی روانگی ہے تو میں نے اپنا سامان اس بیٹی کے سپرد کیا، خود وضو کرنے کیلئے واش روم آ گئی۔ سامنے ہی ہال میں نماز کیلئے جائے نماز موجود تھی۔ دو نفل سفر کیلئے پڑھے، اللہ اللہ کر کے 5 بجے جہاز پر بیٹھنے کیلئے کہا گیا۔
مجھے خوشی تھی کہ اس مرتبہ پاکستان کی اپنی ائر لائن پی آئی اے سے سفر کروں گی۔ یہ میرا پہلا اتفاق تھا قومی ائر لائن سے سفر کاجب سیٹ پر پہنچی تو پی آئی اے والوں کی عقل پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا دل چاہنے لگا، تین بندوں کی لائن میں درمیان والی سیٹ میری تھی۔ میرے دائیں طرف ایک لڑکا میرے بیٹے کا ہم عمر موجود تھااور دوسری طرف بھی ایک مرد تشریف فرما تھے۔ اب ان بیچاروں کو بھی مسئلہ کہ ان کے درمیان میں، میں کباب میں ہڈی کی طرح موجود تھی اور میں بھی پریشان کہ یہ نہ ہو کہ نیند میں ان میں سے کسی پر جا گروں اور وہ بچارہ رگڑا نہ جائے۔
ڈیوٹی پر موجود لڑکے کو بلایا ابھی میں نے بات شروع کی ہی نہیں تھی جب پچھلی سیٹ سے لڑکے نے کہا"اماں جی کو ادھر بھیج دیں۔ ان باجی کے ساتھ اور میں وہاں جانا چاہتا ہوں، میں پیچھے پہنچ گئی اور وہ آگے چلا گیا۔ میری پڑوسن خاتون کے تین بچے تھے۔ ماشااللہ حد سے زیادہ شرارتی، شائد یہاں موجود لڑکے کا بچوں سے تعارف ہونے کے بعد اس نے یہاں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہو۔ دوران سفر ہلکا پھلکا ناشتہ دیا گیا جس کو غنیمت سمجھتے ہوئے پیٹ میں اتارا کیوں کہ اس کے بعد دوائی لینی تھی۔
عمان کے وقت کے مطابق 7 بجے جہاز اتر گیاادھر عمان کی سم جو کہ میرے جانے سے پہلے بچوں نے مجھے پاکستان میں بھیجی تھی۔ وہ عین روانگی سے پہلے کہیں اِدھر، اُدھر ہو گئی تھی یوں وہ مجھے مل نہیں سکی، اب پاکستان سے بیٹا بار، بار بہن سے کال پر پوچھ رہا تھا کہ امی کی کال آئی؟ امی کی کوئی خیر خبر؟ کیا امی جہاز پر تھیں سہی؟ یار امی کے پاس فون تو تھا، پھر کیوں نہیں رابطہ ہورہا؟ میں امیگریشن سے فارغ ہو کر سامان لینے کیلئے آئی۔
مجھے یاد آیا کہ عمان والے بچوں نے کہا تھا کسی ایسے پورٹر کو سامان اٹھانے کا کہئے گا جو کہ اردو بول سکتا ہو، پھر اسے کہیے گا کہ ہمیں صرف ایک مس کال دے گا تو ہم خود اس سے رابطہ کر لیں گےلیکن اس پورٹر نے بتایا کہ ہمیں ائرپورٹ کے اندر سیل فون کی اجازت نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکی نظر آ ئی جو کہ پاکستان میں ائرپورٹ پر میرے ساتھ تھی۔ میں نےاسے کہا"بیٹا پلیز یہ ایک مس کال دیں گی؟
بچی نے کہا"سوری، آنٹی، اتنا بیلینس نہیں، تو رزلٹ یہ نکالا کہ سفر میں ہمیشہ اپنا انتظام پورا کر کے نکلنا چاہیے، جب امیگریشن سے فارغ ہو کر نکلی تو سامنے بیٹی اور 8 سالہ نواسہ نظر آرہے تھے۔ نواسے نے جونہی مجھے دیکھا تو وہ بھاگ کر گلے ملا اور رونا شروع ہو گیا۔"امنا، یقین نہیں آرہا کہ آپ ہمارے پاس آگئی ہیں، امنا میں بہت اداس تھا۔ امنا، آپ اتنی بوڑھی کیوں ہو گئی ہیں، نواسیاں، نواسے مجھے شروع سے امنا بلاتے ہیں پھر بیٹی سے ملی تو بے اختیار ہم دونوں رونا شروع ہو گئیں۔
تیسرے سال میں ہم لوگ مل رہے تھے۔ جب ائر پورٹ سے باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں شدید ٹھنڈا دسمبر تھا اور یہاں پاکستانی مارچ جیسا دسمبر ہے۔ جب میں پاکستان سے یہاں آنے کی تیاریاں کررہی تھی تو وہاں اتنی سردی تھی کہ میں سٹور روم تک جانے میں کانپنا شروع ہو جاتی تھی، اور یہاں بہار تھی۔ دل کے اندر بھی اور باہر بھی عمان کی سڑکیں کھلی ساتھ ساتھ کھجور اور کیکر کے علاوہ بھی مختلف قسموں کے درخت بڑا اچھا تاثر دے رہے تھے۔ موسم میں ہلکی سی خنکی تھی جو جسم کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔
جاری ہے۔۔