Nani Ka Ghar (2)
نانی کا گھر (2)
۔۔ کہ کچی اینٹ والے کمرے گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم (ہپھ) والے ہوتے تھے۔
یہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دنوں کی بات ہو رہی ہے تو ہم دونوں بہنیں ظہر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر "پکی روٹی، بہشتی زیور جیسی ایک پنجابی کتاب) کا سبق پڑھتی تھیں اور پھر ماموں کی کتابوں میں سے کوئی کتاب لے کر نانی کے کمرے میں آ جاتی تھیں۔
ایک کتاب مجھے آج تک یاد ہے "شبستان"۔
یہ شاعری کی کتاب تھی شائد شکیل بدایونی کی تھی اور ایک اردو ڈائجسٹ میں کہانی تھی "سائبیریا سے فرار"۔ اس کہانی میں ایک آدمی نے اپنی سائبیریا کی جیل سے فرار کی کہانی کچھ ایسے انداز میں لکھی ہوئی تھی کہ شدید گرمی میں ٹھنڈ لگ جاتی تھی۔
ان دنوں ٹیپ ریکارڈ نئے نئے مارکیٹ میں آئے ہوئے تھے۔ جب شام کو ماموں ٹیپ ریکارڈر اٹھا کر گھر آتے تو کبھی کیسٹ پر پرانے انڈین گانے سنتے یا کبھی ریڈیو لاہور پر خبریں۔ اس وقت ہمارے دل کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ کبھی ماموں اسے گھر پر چھوڑ کر جائیں۔ پھر ایک دن ماموں نے دوسرے شہر جانا تھا تو ٹیپ ریکارڈر گھر پر رکھ کر گئے۔
جونہی نانی، خالہ اور ممانی باہر برآمدے میں خواتین کے ساتھ مصروف ہوئیں ہم نے خاموشی سے ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ کا سیٹ اٹھایا اور نانی کے کمرے میں آ گئے۔ ہم نے ماموں کی پسندیدہ کیسٹ لگائی اور جھوم برابر جھوم۔
ہمیں مست ہو کر پرانے انڈین گانے سنتے سنتے پتہ نہیں کیا خیال آیا کہ ماموں کی پسندیدہ کیسٹ پر اپنی آواز میں گانوں کی ریکارڈنگ شروع کر دی۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹیپ ریکارڈر کے سیل ختم ہو گئے اور کیسٹ ڈالنے پر وہ اتنی آہستہ چلتی جیسے نانا جی کا ٹانگہ تیسرے گئر میں۔ اور ایسی ایسی آوازیں نکالتی جیسے لمبی سر میں کوئی بین کر رہا ہو۔
جب ہمیں لگا کہ اب یہ ٹیپ ریکارڈر مزید ہمارے کام کا نہیں رہ گیا تو اسے واپس ماموں کے کمرے میں رکھ آئے۔ اگلی رات کو جب ماموں نے دوستوں میں بیٹھ کر ٹیپ ریکارڈر آن کیا تو اندر سے "گڑ بڑ، گڑ بڑ"، کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔
خیر، شہر دور ہونے کی وجہ سے سیل ہر وقت موجود ہوتے تھے وہ ڈالے گئے تو ماموں کے پسندیدہ گانے۔
میری لگدی کسے نہ ویکھی۔ کسے نہ ویکھی، تے ٹٹدی نوں جگ جانڑدا۔
کی بجائے فل آواز پر ہماری سریلی آوازوں میں "ایسے موسم میں چپ کیوں ہو، کانوں میں رس گھولو"۔ شروع ہو گیا۔
اس کی اگلی صبح ماموں کے گھر پہنچنے سے پہلے ہماری واردات کی خبر ملازم کے توسط سے گھر پہنچ چکی تھی اور خالہ نے ہماری سہیلیوں کے سامنے ہمارے کانوں میں جو رس گھولا اس سے سمجھ آ گئی کہ کیسے "لگدی"، کوئی نہیں دیکھتا اور کیسے"ٹٹدی"، کا تماشا سارا جگ دیکھتا ہے۔
نانا جی کے پاس ایک عدد ٹانگا اور اس کا ڈرائیور (کوچوان) بھی تھا۔ جس کی شان آج کل کسی کے گیراج میں کھڑی نئی کرولا سے کسی طور کم نہ تھی۔
اب یہ الگ بات ہے کہ جونہی کوچوان اسے پہلے گئر میں ڈالتا گھوڑا پچھلی دونوں ٹانگوں پر "الف"، ہو جاتا۔
اگلی سیٹ والی سواریاں تو صرف خوفزدہ ہو کر چیخیں مارتیں لیکن پچھلی سیٹ کی سواریاں کبھی کبھار Long jump کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخصت کرنے والے میزبان کے اوپر جا گرتیں اور دونوں جدا ہونے سے پہلے ایک مرتبہ پھر بغل گیر ہو کر تسلی سے مل لیتے۔
اس کے بعد دوسرے گئر میں گھوڑا جوں سرپٹ دوڑتا تو ایک چکر جی ٹی روڈ کا لگا کر باقی مسافروں کو دوسرے چکر میں لے جاتا۔ عموماً ساری تخریب کاری پہلے چکر میں ہوتی تھی اور دوسرا چکر پُر امن رہتا۔
گاؤں کا چھپر وہاں کی رہائشی بھینسوں کا swimming pool تھا جبکہ ہمارا Swimming pool گاؤں کی کھال پر واقع تھا۔
ہم لوگ کھال پر پہنچ کر پہلے دائیں، بائیں گرم دھوپ میں موجود تربوز اور خربوزے ان کی لمبی بیلوں کے ساتھ کاٹ کر کھال میں لٹکا دیتے تا کہ نہانے کے بعد انہیں کھایا جائے تو گرم نہ ہوں۔
اس کے بعد کھال میں "رڑی"، بنائی جاتی۔ کیوں کہ"رڑی"، کے بارے میں بھی عام عوام کچھ نہیں جانتی تو بتا دوں کہ کھال میں سیدھے سیدھے پیر رکھیں تو آپ کیچڑ میں پھنس جاتے اور پاؤں نکالنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔
لیکن جن لڑکیوں کی مشق ہوتی ہے وہ کھال کے کنارے کو مضبوطی سے پکڑ کر کھڑی ہو کر پیروں سے مسلسل زمین کی رگڑائی کرتی ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد زمین ایسے بن جاتی ہے جیسے پکا فرش۔
باقی لڑکیاں تو اپنی اپنی رڑی خود بناتی تھیں لیکن میری رڑی ہمیشہ میری سہیلی زینت بنایا کرتی تھی۔
گرمیوں کی گرم راتوں میں کھلے آسمان تلے ممانی اکثر ہم بہنوں سے گانے کی فرمائش کرتیں تو نورین بہن ہاتھ والے پنکھے کی ہوا کے بدلے ملتان والی پھپھو سے سن، سن کر یاد کیا ہوا گانا۔
دل تانگے، تانگے
اللہ جوڑ سانگے
سجناں دا ملنا مشکل تے وانگ اے۔
سنایا کرتی اور گانوں میں بہت نالائق ہونے کی وجہ سے میں اپنی اردو کی کتاب کی نظم۔
ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت
لہک لہک کر سنایا کرتی تھی۔
رات کو ساڑھے دس بجے "تعمیل ارشاد"، فرمائشی نغموں کا پروگرام آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتا تب ہمارا شو ختم ہوتا۔
خالہ کی عمر ہمارے سے کچھ زیادہ بڑی نہیں تھی اس لئے اکثر گڈے گڑیا کی شادی میں ہمارے ساتھ شریک ہوتی تھیں اور گڑیا کے جہیز کے کپڑوں پر گوٹا بھی لگا دیتی تھیں۔
ماموں شکار کے شوقین تھے۔ گھر میں شکاری کتوں کی رہائش، کھانا پینا جس میں دیسی گھی وغیرہ کا خاص اہتمام ہوتا، کیا جاتا۔ ہر کچھ دنوں کے بعد جب ماموں شکار پر جاتے تو اکثر شکار میں خرگوش لے کر آتے۔
خرگوش کا گوشت بہت سرخ ہوتا اور کھانے میں ذائقہ بھی مجھے پسند نہیں آتا تھا۔ اس لئے میں قریب نہیں جاتی تھی۔
اب تو نانی کے گھر اور ان گلیوں میں گئے سالہا سال گزر چکے۔ بس کبھی کبھار یادوں کے در وا ہوں تو قافلہ در قافلہ یادیں چلی آتی ہیں۔