Media Qawaneen Banaye Jayen
میڈیا قوانین بنائے جائیں
10 سالہ نواسی کی خواہش تھی کہ نانی کی طرح ٹھکا ٹھک سلائیاں بنائے اور فٹا فٹ کروشیا بنائے۔ ایک دن اس کا چھوٹا سا ٹیسٹ لیا اور اس کے رحجان کو دیکھتے ہوئے کروشیا سکھانا شروع کیا۔ پہلے دو دن کے اندر اندر بچی نے سیدھی زنجیری بنانی شروع کردی۔ اب وہ مزید کچھ سیکھنا چاہ رہی تھی۔ میں نے اس کا فون لیا تاکہ اسے کچھ ضروری کلپ نکال کر دوں اور وہ دیکھ کر کچھ اندازہ لگا سکے کہ مزید کروشیا کرنے کیلئے کیا کیا چیزیں ہیں، جن میں اس کی دلچسپی ہے یا جو وہ بنا سکتی ہے، لیکن یہ کیا؟ اس کی یوٹیوب پر نگرانی لگی ہوئی تھی بلکہ تالا لگا ہوا تھا۔
چھوٹا نواسہ آیا کہ ٹی وی پر کارٹون لگا دیں۔ ٹی وی کے کارٹون بھی فون کے ساتھ ہی لگ سکتے تھے۔ وہاں پر بھی چند ہی کارٹون تھے جن کو دیکھ دیکھ کر بچہ تھک چکا تھا اور باقی سب پر تالہ لگا ہوا تھا۔ بڑا نواسہ ڈرامہ دیکھنا چاہ رہا تھا لیکن وہاں بھی ان کے والدین کی طرف سے restrictionلگی ہوئی تھی۔ اب میں پریشان کہ کیا کروں ؟ کیونکہ مجھے علم نہیں تھا کہ کیسے ان کے فون پر لگے ہوئے تالے توڑوں اور اس وقت ان کے والدین بھی اپنے اپنے آفس گئے ہوئے تھےخیر، سب سے چھوٹے کو کھلونا گاڑی نکال کر دی بڑے دونوں کو لیکر ان کے کمرے میں آ گیی۔
کچھ دیر تک سوچا کہ اپنے سیل فون سے بچوں کو ٹی وی پر کیا لگا کر دوں کہ جس سے بچے بھی خوش ہو جائیں ؟ اور ان کے والدین کو بھی شکوہ نہ ہو کہ ہم نے بچوں پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں اور نانی انہیں بگاڑ رہی ہے۔ آخر کار پی ٹی وی کا پرانا ڈرامہ گیسٹ ہاؤس لگایا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ بچوں کو گیسٹ ہاؤس بہت پسند آیا۔ اگر چہ ہر سین میں دوپٹہ سر پر تھا، کوئی اوور میک اپ، کوئی اوور فیشن، کوئی شادی کا سین، کوئی ناچ گانا کچھ بھی تو نہیں تھالیکن بچے تھے کہ پوری طرح محظوظ ہورہے تھے۔
کیوں کہ کہانی پر توجہ دی گئی تھی، کرداروں پر محنت کی گئی تھی اور اس ٹیم ورک کے ہر کارکن کی لگن ڈرامے کے ہر سین میں نظر آرہی تھی۔ اور ڈرامہ ختم ہونے کے بعد اگلے دن کے لیے پھر ایک اور گیسٹ ہاؤس سیرئل کا ڈرامہ دیکھنے کے وعدے کے ساتھ ان کا آج کا ٹی وی بند کیا۔ شام کو نواسہ جان ریمبو والے سٹائل میں وائپر لیکر گھوم رہا تھا اور نواسی ثروت عتیق والے طریقے سے دوپٹہ سر پر لیکر بیٹھی ہوئی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ بچوں کے زہن فوری اثر لیتے ہیں۔ ہر اچھی اور بری چیز کااور عام عوام اپنے لیڈر یا اپنے ہیروز، یا اپنے سے بہتر کلاس کے لوگوں کو کاپی کرتی ہے۔
جب بھٹو نے شلوار قمیض پہنی تو عام عوام نے بھی بڑے شوق سے اسے پہننا شروع کیا۔ بے نظیر بھٹو نے دوپٹہ لیا تو آج تک سیاسی خواتین نے دوپٹے کو اپنے لباس کا حصّہ بنایا ہوا ہے۔ زرائع ابلاغ کسی بھی معاشرے کو سدھارنے یا بگاڑنے میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ قوم کا مجموعی رحجان کسی طرف موڑنے کیلئے عالمی طور پر بڑے بڑے کام اس میڈیا سے لئے گئے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے" کہ ہمارے ہاں کے 95 ٪ ڈرامے پاکستان کے کس معاشرے کو دکھا رہے ہیں؟
کیا ہمارے ہاں عام گھروں میں سسر اپنی بہو میں، بہنوئی اپنی سالی میں یا دیور اپنی بھابھی میں دلچسپی لے رہا ہوتا ہے؟ ؟ شائد کبھی 1٪ سے بھی کم کسی بہت ہی پس ماندہ زہنیت کے حامل گھروں میں کوئی ایسا واقعہ ملتا یو گالیکن میری 60 سالہ زندگی میں میری ملاقات کبھی کسی ایسے کردار سے نہیں ہوئی۔ اس طرح کے کردار مسلسل دکھانے سے یہ ہوگا کہ۔ عام لوگوں کے زہنوں سے ان رشتوں کی حرمت ختم ہو جائے گی۔ نئی نسل کے بچے ان رشتوں کے بارے میں کچھ بھی غلط سوچنے کو برا نہیں سمجھیں گے۔
پھر آپ لباس کو لے لیں۔ جہاں کسی امیر گھر کی لڑکی دکھانی ہے اسے ضرور سلیولیس قمیض، ٹائٹ جینز اور عجیب وغریب لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ اگر متوسط طبقے کی بات کریں تو ہمارے ہاں عام متوسط طبقے کی کتنے ٪ بچیاں ہیں جو اس طرح کے لباس، فیشن، گاڑیاں استعمال کرتی ہیں جو ہمارے ہاں کے ڈراموں میں دکھائے جاتے ہیں؟ میرا مقصد یہ نہیں کہ گاڑی چلانا کچھ برا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بچے اپنے والدین کی گنجائش کو نہیں دیکھتے اور ایسے ہی طرزِ زندگی کی توقع اپنے والدین سے کرتے ہیں جیسی ڈرامے میں دکھائی جاتی ہے۔
جس معاشرے کی ایک بڑی اکثریت صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، دیہی علاقوں میں تعلیم، صحت، مناسب خوراک۔ حفظان صحت کے بنیادی اصولوں سے نا بلد ہےوہاں کے عوام کو اس میڈیا کے زریعے تربیت دینے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ ڈراموں کے زریعے انہیں بہت کچھ سکھایا جا سکتا ہے۔ مارننگ شوز میں گھریلو لڑائی جھگڑے اور شادیاں دکھانے کی بجائے ان لوگوں کو دکھایا جائے جنہوں نے انفرادی طور پر اپنے محلے میں رفاہ عامہ کیلئے کچھ کام کیا ہو، کسی بچے کو پڑھایا ہو، کسی محلے میں صفائی کیلئے کچھ کیا ہو۔
کہیں پر کوڑا کرکٹ ڈالنے کیلئے کوئی ڈرم رکھوایا ہو، کہیں غریب بچیوں کو سلائی، کڑھائی یا کچھ ہنر سکھایا ہو، کہیں عام لوگوں کیلئے میٹھے پانی کا نلکا لگوایا ہویا کم ازکم ایک ایسا معاشرہ تو دکھائیں جو ہمارا اپنا معاشرہ ہو۔ پاکستانی ڈراموں میں جو معاشرہ دکھایا جاتا ہے وہ ہمارا معاشرہ نہیں ہے۔ ہمارے پرائیویٹ چینلز کے ڈرامے بڑے، چھوٹے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی بڑی تعداد میں عوام دیکھتی ہے۔
لیکن نہایت افسوس سے کہنا ہڑتا ہے، کہ ان ڈراموں کو دیکھنے کے بعد کچے زہن کی نئی نسل خاص طور پر وہ بچیاں اور بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جن کے مالی وسائل زیادہ نہیں ہیں اور ان کی مائیں گھر گرہستی میں اور باپ غم روزگار میں غرق ہیں، یا وہ گھرانے جہاں والدین نوکری پیشہ ہیں اور وہ اپنے بچوں پر نظر نہیں رکھ سکتے اور اس پر آشوب دور میں ان کی مناسب رہنمائی نہیں کر سکتے ہیں۔ یا وہ بچے جن کے سر پر باپ کا ہاتھ نہیں ہے، کاش کچھ میڈیا قوانین بنائے جائیں، کچھ ڈریس کوڈ دیا جائے، کوئی سنسر پالیسی بنائی جائے۔
آج کے دور میں بچوں کی تربیت ایک مشکل ترین کام ہے اور میڈیا اس میں بہترین رول ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت سخت ضرورت ہے کہ میڈیا قوانین بنائے جائیں تا کہ ہماری نسل کو بہترین تربیت دی جا سکے اور اسے بے راہ روی سے، بچایا جا سکے۔