Jannat Ka Phool
جنت کا پھول
وہ دلہن بنی ہوئی شرم سے جھکی جارہی تھی اس کا خالہ زاد، دلہا اسے ہاتھ سے پکڑ کر دہلیز پار کروا رہا تھاآنکھوں میں سپنے، زبان پر دعائیں اور دل میں خوف تھانہ جانے آئندہ زندگی کیسی ہوگی؟ پتہ نہیں جیون ساتھی کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہوگا؟نہ جانے خالہ اور گھر والے میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ ڈرتے ڈرتے نئی زندگی کی ابتدا کی اور جلد ہی اللہ نے اسے خوش خبری سے نواز دیا۔عورت تو پیدائشی ماں ہی ہوتی ہے،مامتا کا جذبہ تو ربّ نے عورت کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہوتا ہے۔وہ بھی روائتی عورت تھی، وہ بھی پیدائشی ماں ہی تھی۔
جب سچ پر ماں کے رتبے پر فائز ہونے جارہی تھی تو اس کی شرمیلی مسکراہٹ میں کچھ اور ہی حسن نظر آتا تھا۔آنکھیں مامتا کے نور سے ہیروں کی مانند چمکتی تھیں، جسم تھوڑا سا بھر گیا تو اس کی چال مزید مستانی ہو گئی تھی۔ گھر کے کام کاج، جھاڑ پونچھ کھانا پکاتے ہوئے جب وہ اپنی زندگی میں آنے والے پہلے مہمان کا سوچتی تو اسے، اس پر بن دیکھے ہی پیار آ جاتا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ کام کرتے کرتے بیٹھ جاتی اور آنے والی ننھی روح کے بارے پیار بھری سوچوں میں گم ہو جاتی کیا وہ بیٹی ہو گی ؟اگر وہ بیٹی ہوئی تو اس کا نام کیا رکھوں گی؟
فاطمہ یا کشش زہرہ نہیں،کوئی نیا نام آئمہ یا رانیا۔ یا جنت؟ کیا پتہ بیٹا آ جائے تو اس کا نام حیدر یا علی مصطفیٰ؟کھانا بن گیا، ادھر اس کے شوہر کی آواز آتی تو وہ خیالوں سے نکل کر حقیقی دنیا میں آ جاتی لیکن آج رات کچھ پریشان کن تھی جب اس کے شوہر نے دوستوں کی محفل سے واپس آکر اسے ڈانٹتے ہوئے کہا" مجھے بیٹے کی خواہش ہے اور میرے ہاں پہلا بیٹا ہونا چاہیے"۔ لیکن یہ تو اللہ کے کام ہیں، بہت ڈرتے ہوئے اس نے جواب دیا اتنے دنوں میں اسے شوہر کے غصے کا اندازہ ہو چکا تھا لیکن وہ دروازہ دھڑام سے بند کر کے جا چکا تھا۔
اب اس کا معصوم سا دل لرزتا رہتا تھا کہ اللہ بیٹا ہی دیں یہاں تک کہ آخری مہینے قریب آ لگے۔الٹرا ساؤنڈ کے زریعے پتہ چل سکتا تھا کہ آنے والا مہمان بیٹی ہے یا بیٹا؟لیکن وہ ڈر کے مارے پوچھنا نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹے والا خواب ٹوٹ نہ جائے۔حمل کے آخری دن تو اس کی سوچ سے بھی بہت زیادہ مشکل ثابت ہورہے تھےسیدھی سوتی تو سانس بند ہونے لگتا ،کروٹ بدلتی تو اندر موجود ننھی منی جان کو یہ پوزیشن زیادہ پسند نہ آتی اور اندر سے کہنیاں اور گھٹنے مارنا شروع کردیتی۔ کچھ کھا لیتی تو گھبراہٹ اور اگر کچھ نہ کھاتی تو انتہائی کمزوری۔
ویسے تو سارے مہینے ہی مشکل تھے۔ شروع میں الٹیاں بھی تکلیف دہ تھیں پھر زیادہ وزن کے ساتھ چلنا، پھرنا گھر کو دیکھنا شوہر کی ضروریات کو پورا کرتے کرتے وہ نڈھال ہو جاتی لیکن یہ آخری دن تو۔ ہر دن گن گن کے گزررہا تھا اور آخر وہ دن آگیاجس دن عورت کی تخلیق کا مقصد پورا ہو جاتا ہےکہ وہ مزید ایک زندگی کو دنیا پر لانے کا باعثِ بن جاتی ہے ۔یہ وصف تو اللہ کا ہے جس نے دنیا کو تخلیق کیااور پھر یہ وصف اللہ نے ماں کو دیا کہ وہ دنیا پر مزید زندگیاں لانے کی وجہ بنے۔عورت کی اپنی زات کی بھی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب وہ ماں بنتی ہےاور آخر اس کی ذات کی بھی تکمیل ہو گئی۔
جب ننھے سے وجود کو اس کی بانہوں میں دیا گیا تو اسے دیکھ کر اس کا چہرہ مامتا کے نور سے روشن ہوگیااور جب نرس نے بیٹی کا بتایا تو اس کے ذہن میں وہ سارے نام گھوم گئے جو اس نے بیٹی کےلیے سوچے تھے۔وہ رنگ برنگی چوڑیاں، وہ رنگ برنگے فراک، وہ رنگ برنگی پونیاں سب ہی تصویریں اس کے زہن میں چلنا شروع ہو گئیں لیکن یہ کیا؟ جب اسے لوگوں نے بتایا کہ اس کا شوہر بیٹی کو دیکھنے کی بجائے اسے دھکا مار کر، پھینک کر چلا گیا کہ مجھے تو بیٹا چاہئے لیکن وہ پریشان نہیں تھی وہ پرامید تھی کہ اس کا شوہر اتنی پیاری بیٹی کو جب گود میں لے گا اور اس کی سرمہ بھری معصوم آنکھوں کو دیکھے گا۔
جب ننھی پری کو سوتے ہوئے فرشتوں جیسی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھے گاتو اس کا دل خود ہی اس کی محبت سے لبریز ہو جائےگا۔اور بیٹے کا کیا ہے جس اللہ نے اب بیٹی دی ہے وہ اللہ اگلی مرتبہ بیٹا بھی دےدے گا ۔وہ مامتا کے نشے میں چور، بیٹی کو سینے سے لگاتی کبھی اس کے ماتھے کو بوسہ دیتی، کبھی اس کے ننھے منے ہاتھ چومتی اور اپنے آپ کو حوصلہ دیتی رہتی کہ ایک مرتبہ اس کا شوہر بیٹی کو دیکھے گا تو خود ہی اس کی محبت میں گرفتار ہو جائے گا ،ننھی جنت نےآکر اس کی دنیا کو جنت بنا دیا تھا۔
کچھ دن تو سارے نومود بچوں اور ماؤں کی طرح جنت کی بھی ماں سے دودھ پینے والے مسئلے پر کھینچا تانی ہوتی رہی لیکن اب ساتویں دن جنت اچھا خاصا سیکھ چکی تھی کہ دودھ کیسے پینا ہے؟وہ جان چکی تھی ماں ہی تو اس کی خوراک کا خزانہ ہے۔ جنت ماں کی گود میں، ماں کا دودھ پیتے پیتے سو گئی۔ جب اچانک کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلاآنے والے کے ہاتھ میں پستول تھا اور اس نے آتے ساتھ دیوانہ وار جنت کو ماں کی گود سے کھینچ کر نکالااور سات دن کی بچی پر فائر کھول دیا کہ مجھے بیٹی نہیں بیٹا چاہئے۔جنت تو جنت کا پھول تھی وہ تو جنت میں چلی گئی۔
لیکن ماں جس کی گود اجڑ گئی اسے کسی پل قرار نہیں ،کبھی وہ جنت کے کپڑے سینے سے لگا کر روتی ہے،کبھی اس کے کمبل میں اس کو تلاشتی ہے جانے والی تو اپنے پیاروں کو روتا چھوڑ کر چلی گئی لیکن اب یہاں بہت سارے سوال جنم لیتے ہیں کیا باپ زہنی مریض تھا؟ کیا وہ تشدد پسند زہنیت کا حامل تھا؟ کیا وہ دوہری شخصیت کا مالک تھا؟ ان سارے سوالات کے جواب سے پہلے میں ایک سوال مزید پوچھنا چاہوں گی کیا اس مرد اور اس عورت کو شادی سے پہلے educateکیا گیا تھا کہ شادی کے حقوق اور فرائض کیا ہیں؟
جب ایک مرد اپنے دوستوں کی یہ بات مان رہا ہے کہ پہلی بیٹی پیدا ہونے کا مطلب مرد کی مردانگی کمزوری ہےتو کیا اس مرد کے پاس ازدواجی زندگی کی ضروری معلومات ہیں؟ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ ہم اس مسئلے کو عورت اور مرد کے حقوق کی لڑائی میں بدل دیں بلکہ یہ ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہم اپنے گھروں میں اپنی بچیوں اور بچوں کو آئندہ آنے والی زندگی کے بارے میں ضروری معلومات اور نشیب و فراز سے آگاہ کرتے ہیں؟ یہ بہت ضروری ہے کہ گھروں میں شادیوں سے پہلے بچوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
ہماری گورنمنٹ کو تو اپنے لڑائی جھگڑوں سے فرصت نہیں ملنی کہ ہم ریاست سے یہ مطالبہ کر سکیں کہ ہر مستقبل میں شادی شدہ ہونے والے جوڑوں کے کچھ ضروری میڈیکل ٹیسٹ اور کچھ ضروری تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں جو ہمارا مستقبل ہیں وہ محفوظ ہوں۔
لیکن اب ہمیں اپنے طور پر کوشش کرنی ہے کہ پھر کوئی مرد کسی ماں کی گود نہ اجاڑے۔ کسی جنت کے پھول کو توڑ کر نہ پھینکے۔