Jahez Wala Dinner Set
جہیز والا ڈنر سیٹ
تقریباً تمام پاکستانی گھرانوں کی برتنوں والی الماری میں امی کے جہیز کا ایک ڈنر سیٹ ہوتا ہے جسے خاص خاص موقعوں پر دنیا کی ہوا لگوائی جاتی ہے۔ اسی طرح ہماری الماری میں بھی ایک سیٹ موجود ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بھی کسی نہ کسی کے گھر اس طرح کا ڈنر سیٹ ضرور ہو گا جو کہ میرے والے کے ساتھ کا ہو گا۔ جسے کسی زمانے میں آپ کی امی نے بھی ضرور باڑہ بازار پشاور (آج کل حیات آباد)سے خریدا ہوگا۔
ایک تو جہیز کا اوپر سے فرانس کا بنا ہوا، براؤن ٹرانسپیرنٹ شیشے کا ڈنر سیٹ۔ اس لئے پیارا لگنا تو بنتا ہی ہے۔
تو بھئی سہیلیوں! بات یہ ہے کہ میں کیونکہ روائت شکن عورت ہوں اس لیے میں نے بچیوں کے رشتے وغیرہ کرنے تک تو اسے جان برابر رکھا لیکن اس کے بعد کسی بچی کو جہیز میں دینے کی بجائے گھر میں ہی رکھا۔
آج کل میں پنڈی ہوں اور یہاں آتے ہوئے اس میں سے تین عدد پلیٹیں دو بڑے سائز کی اور ایک چھوٹے سائز کی ساتھ ہی لے آئی۔ یہاں ان تین پلیٹوں کے لانے کا مقصد اوون میں استعمال کرنا تھا۔ ایک بڑی پلیٹ میں جس میں کچھ گرم کرنا ہو اور دوسری چھوٹی پلیٹ اوپر سے ڈھانپنے کیلئے۔
اوون کا استعمال ہمارے گھر میں کم سے کم ہوتا ہے کیوں کہ اس کی شعاعیں مضر صحت ہیں لیکن اگر کبھی مجبوری میں استعمال کرنا پڑ جائے تو یہ لازمی ہے کہ کھانے کو اوپر سے ڈھک کر رکھیں۔ اور چھوٹی پلیٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ اوپر ٹھہر جاتی ہے اور گرتی نہیں جبکہ اگر دونوں پلیٹیں ایک ہی سائز کی ہوں تو اوون میں گھومتے ہوئے گرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
تو جناب جی قصہ کچھ یوں ہے کہ عید سے کچھ دن پہلے چھوٹی بیٹی بمعہ نواسی اور اس کی ہیلپر بچی کے ہمارے یہاں آ گئے۔ عید پر کچھ آنا جانا مہمانوں کا بھی ہوتا ہے۔
جب عید کی گہما گہمی ختم ہوئی، بچوں کے سکول کالج کھل گئے بیٹی بھی واپس پنڈی سے لاہور پہنچ گئی۔ زندگی کچھ معمول پر آ گئی تو ایک دن میں نے کچن کا چکر لگایا کہ ایک مرتبہ چیزوں کو خود دیکھوں اور ترتیب میں کچھ کمی بیشی ہے تو درست کر دوں۔ تو چیزوں کو سیٹ کرتے ہوئے دیکھا تو جہیز والی چھوٹی پلیٹ نظر نہیں آ رہی تھی۔
سارے کچن کو کنگھال مارا، فریج میں، کمروں میں، الماریوں میں حتیٰ کہ ہر بیڈ کے نیچے بھی لمبا جالے اتارنے والا ڈنڈا بھی گھما کر دیکھا۔ اب میرا پارہ ہائی ہونا شروع ہو گیا۔
بیٹی کو لاہور کال کر کے اس سے بھی پوچھ لیا۔ اس کے بعد تو میں جو گجی اور وجی (گرجی اور برسی)۔ میں نے کہا کہ میں نے زندہ نہیں چھوڑنا جس نے میرے جہیز والی پلیٹ توڑی۔
نادیہ تو بیچاری ڈر کے اپنے عافیت کدے میں گھس گئی۔ دراصل اسے علم نہیں تھا کہ گرجنے والے برستے نہیں۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے کتنی محبت ہے اپنے جہیز والے ڈنر سیٹ سے، اور یہ کہ میں بالکل بھی روایت شکن نہیں ہوں۔
ابھی تو یہ شکر ہے کہ بڑی بیٹی (بہو) کالج جا چکی تھی، نہیں تو میرا اس پر اتنا اچھا امیج کتنا خراب ہو جانا تھا۔
عید کے دنوں میں گھر میں تین ہیلپر تھیں۔ دو میری اپنی اور ایک نور کے ساتھ آئی ہوئی۔ میں جوں جوں غور کرتی مجھے لگتا کہ پلیٹ نادیہ (میری ہیلپر بچی) سے ٹوٹ گئی ہے اور وہ مجھے بتا نہیں رہی۔
کیونکہ اگر نور والی بچی سے ٹوٹتی تو نادیہ نے اس کا پردہ نہیں رکھنا تھا اور دوسری ملازمہ 50 سالہ زمہ دار عورت ہے اس نے بھی خود ہی بتا دینا تھا۔ نادیہ جب سے ہمارے گھر آئی ہے اس نے کافی برتن توڑے ہیں اور میں نے کبھی اسے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
جب گرجنے برسنے کے بعد میرا غصہ اتر گیا تو نادیہ کو پاس بلا کر پیار سے پوچھا کہ بیٹا آپ کو پتہ ہے نقصان پر کبھی ڈانٹ نہیں پڑتی بس مجھے سچ سچ بتا دو تاکہ میں اسے مزید تلاش نہ کروں۔
اس نے کہا "وہ تو شاید بصری (دوسری لاہور والی) بچی سے ٹوٹی ہے"۔
اچھا!
پتہ نہیں کیوں مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔
پھر پوچھا۔ "کیسے ٹوٹی"؟
ہاتھ سے گر کر۔
کتنے ٹکڑے میں ٹوٹی؟
"دو ٹکڑوں میں"۔
اب جن لوگوں نے اس طرح کے برتن استعمال کئے ہوں انہیں علم ہو گا کہ یہ برتن زوردار چھناکے سے ٹوٹتے ہیں اور کرچی کرچی ایسے ہوتے ہیں جیسے چینی کے دانے۔
مجھے سمجھ آ گئ کہ بصری یا نادیہ میں سے کسی سے پلیٹ نہیں ٹوٹی۔ یا تو خود میرے سے ٹوٹی ہے یا پھر کہیں پڑی ہوئی مل جائے گی۔
آخر جب پلیٹ پر صبر کر لیا اور آج صبح چھوٹی فریج کے فریزر کی صفائی کیلئے اسے کھولا تو سامنے پلیٹ شرارت سے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
"آنٹی میں یہاں ہوں "۔
(فریزر کی طرف دھیان ہی نہیں گیا تھا)۔
ابھی ابھی نادیہ سے معذرت کی ہے کہ میں اس دن اونچا بولی تھی۔ نادیہ کی بھی مہربانی کہ اس نے کہا ہے۔ "کوئی بات نہیں میری امی بھی کبھی ایسے ہی ڈانٹ دیتی ہیں"۔
لیکن بہرحال میری یہ غلط فہمی دور ہو گئی ہے کہ میں عام عورتوں سے ہٹ کر ہوں۔ بھئی مجھے بھی اپنے جہیز کے ڈنر سیٹ سے بہت پیار ہے۔