Islam Aur Hamari Muasharti Zindagi
اسلام اور ہماری معاشرتی زندگی
اگر وقت کا پہیہ واپس گھوم سکے تو میں اسے واپس گھما دوں یا اگر کچھ واقعات زندگی کی کتاب سے پھاڑ سکوں تو اب انہیں پھاڑ کر پھینک دوں۔ شادی کے تین سال کے بعد گرمیوں کے موسم کی شام تھی اور میں صحن میں اپنے چھ ماہ کے بچے کو گود میں لئے بیٹھی تھی۔
ساس امی مغرب کی نماز کے بعد اپنے کمرے سے باہر آئیں تو ہلکا سا اندھیرا ہو چکا تھا۔
انہوں نے کہا "تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ شام ہو تو برآمدے کی لائٹ جلا دیا کرو۔ اور ساتھ ہی لائٹ جلائی۔ لیکن ٹھاہ کی آواز کے ساتھ بلب زور سے جلا اور پھر فیوز ہو گیا۔
بے ساختہ میں نے کہا کہ "شکر ہے میرے سے فیوز نہیں ہوا"۔ اور اس کے بعد پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ "ہاں، اگر تم سے فیوز ہوتا تو تمہیں تو ہم نے پھانسی ہی لٹکا دینا تھا نا"۔
مجھے سچ پر آج تک اپنے ان الفاظ پر شرمندگی ہوتی ہے اور اپنے اس جملے کو کتاب زندگی سے نکال دینا چاہتی ہوں۔ کیونکہ اس دن پہلی مرتبہ انہیں کسی بات کا جواب دیا اور وہ بھی اتنا بے وقوفانہ۔
ایک اور واقعہ بالکل بچپن کا۔ امی ڈانٹے جا رہی۔ ڈانٹے جا رہی۔ جب امی نے آخری جملہ بولا"یہ لڑکی نہیں سیکھنے والی۔ ایسے ہی ساری زندگی میرے سینے پر مونگ دلے گی"۔
تو میرا یادگار جواب کیوں امی! ساری زندگی اپنے پاس ہی رکھنا ہے۔ شادی نہیں کرنی میری؟ اور وہ وقت کوئی ایسا تھا قبولیت کا، کہ چاروں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی یعنی میری شادی سب سے پہلے ہو گئی۔ کاش کہ اس جملے کو میں نے نہ کہا ہوتا تو میں آرام سے اپنے شوق پورے کرتی اور میری شادی میری باری پر ہی ہوتی۔
ایک اور واقعہ ایسا ہے جس پر آج بھی اپنی زبان کے شگوفوں پر دکھ ہوتا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ چچا زاد بھائی کی شادی تھی۔ تب میرے دو بچے تھے۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق اپنے کپڑے ٹھیک بنائے ہوئے تھے۔ اور دونوں بچوں کے بھی کافی اچھے بنائے تھے۔
اپنے گوٹے کے کام والے دوپٹے کی کانٹ چھانٹ کر کے بیٹی کا فراک اور بیٹے کی شلوار قمیض خود سلائی کئے تھے اور میری کزن (جس کے شوہر کی گورنمنٹ کے ایک ایسے ادارے میں ملازم تھے جہاں رشوت کی ریل پیل تھی) اور اس کے بچوں کے مہنگے ریڈی میڈ ڈریسز تھے، نے مذاقاََ کہ دیا "یہ کیا کپڑے بنائے ہیں بچوں کے؟"
تو میں نے ٹھوک کر جواب دیا۔ "یہی کپڑے ہی تو ہوتے ہیں جن کیلئے بیویاں اپنے خاوندوں کو رشوت لینے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔
جبکہ میں یہ بھی کہ سکتی تھی "بھئی اس مرتبہ اپنے روائتی کپڑے بنانے کا دل چاہ رہا تھا اس لئے دونوں کے کپڑے خود سلائی کئے"۔
میرا خیال ہے کہ ہم میں سے ہر انسان کے ذخیرہ الفاظ میں ایسے الفاظ ہونے چاہئیں جن سے ہم نرم الفاظ میں اپنی بات دوسرے انسان تک پہنچا سکیں۔
میری ساس امی اکثر کہتی تھیں۔
"یہی زبان تخت بٹھائے
یہی زبان تختے چڑھائے"۔
یعنی اچھی زبان آپ کو بادشاہ جیسی عزت دے سکتی ہے اور بری زبان آپ کو تختہ دار تک پہنچا سکتی ہے۔
دوسری بات جو میں کہنا چاہتی ہوں یہ کہ ہمارے گھروں میں چاہے ہم والدین کے ساتھ ہیں یا شادی کے بعد سسرال والوں کے ساتھ ہیں یا اپنے کام کی جگہ ہیں یا میری طرح اب بڑھاپے میں اپنے بچوں کے ساتھ ہیں، کسی بھی صورت میں اگر آپ کے ساتھ والے لوگوں میں سے کسی کا عمل آپ کیلئے تکلیف کا باعث بن رہا ہے تو مناسب لفظوں میں ضرور بتائیں کہ آپ کو دوسروں کا کونسا عمل دکھ دے رہا ہے؟
بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنا، معاف کرنا اور اپنی غلطی کا احساس ہونے پر معافی طلب کرنا کامیاب زندگی کے بہترین اصول ہیں۔ جب تک آپ بات نہیں کریں گے آپ کے دل میں شیطان وسوسے ڈالتا رہے گا۔
ہر بری سے بری بات کا گمان آپ کے دل و دماغ میں پنپتا رہے گا اور آخر ایک دن ایسا آئے گا کہ سب کچھ ایک دھماکے سے اڑ جائے گا۔ کسی بھی بہت بڑے آتش فشاں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے شکوؤں اور ناگوار واقعات کی ایک لمبی لسٹ ہوتی ہے۔ اس لئے جب بھی کسی کی کوئی بات تکلیف دہ لگے تو نہایت مناسب الفاظ کے ساتھ متعلقہ شخص سے ضرور بات کریں۔
مثلاً آپ کے جوائنٹ فیملی گھر میں کوئی اپنے بچوں کے ساتھ بہت چلا چلا کر بولتا ہے جس سے آپ کے کام یا آرام میں خلل پڑتا ہے تو پہلے آپ مجموعی طور پر بات کریں کہ فلاں کی بیٹی یا بہو بہت سمجھدار ہے جب بچوں کو کچھ سمجھانا ہو تو اتنے پیار سے اور آہستہ آواز میں انہیں سمجھاتی ہے کہ لگتا ہے کوئی کہانی سنا رہی ہے۔
اور اگر لگے کہ اس طریقے سے آپ کا پیغام دوسرے بندے تک نہیں پہنچ رہا تو پھر نرم لہجے میں اسے اس طرح کہ سکتی ہیں۔
"مجھے علم ہے بچے بات نہیں مانتے تو ماؤں کو اونچا بولنا پڑتا ہے یہ آپ کی مجبوری ہے لیکن اگر آپ تھوڑی آہستہ آواز میں بات کریں گی تو وہ جلدی سمجھے گا اور باقی لوگ بھی ڈسٹرب نہیں ہوں گے"۔
یا اگر آپ کی ساس آپ کے کسی کام میں خواہ مخواہ آپ کو روک، ٹوک کر رہی ہیں تو آپ اس طرح سے کہ سکتی ہیں۔ "ویسے تو آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن کیوں کہ میں بہت عرصے سے ایسا ہی کر رہی ہوں تو ابھی فوری طور پر اسے چھوڑنا میرے لئیے مشکل ہو گا لیکن میں کوشش کروں گی کہ جلد ہی آپ کے طریقے سے اسے کرنا سیکھ سکوں۔ "
ضروری نہیں کہ آپ کی کہی ہوئی بات کا دوسرے فریق پر بھی کچھ مثبت اثر ہو اور وہ آپ کی بات مان لے۔ لیکن آپ کے اندر ایک سکون ہوگا، آپ اپنے ضمیر کی عدالت میں مطمئن اور اللہ کی عدالت میں سرخرو ہوں گے۔
اسلام نے زندگی گزارنے، محفل میں بیٹھنے، کھانے پینے، سونے جاگنے اور زندگی کے تمام معاملات میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی بات ہمارے لئے ناپسندیدہ ہے تو ہمارے چہرے سے، ہمارے تاثرات سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ یہ بات ہمارے لئے ناپسندیدہ ہے۔
آپ ﷺ کو اگر کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی تھی تو آپ ﷺ خاموش ہو جاتے تھے لیکن ان کے چہرہ اقدس سے ناگواری کا علم ہو جاتا تھا۔ اور اگر آپ ﷺ نے کسی صحابی کو کسی بات سے روکنا ہوتا تھا تو آپ ﷺ کبھی براہ راست کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ مجموعی طور پر بات کرتے تھے کہ لوگوں کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں، یا یہ چیز اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں۔
دوسری بات یہ کہ"حد سے زیادہ تواضع نفاق کی علامت اور عداوت کا پیش خیمہ ہوتی ہے"۔ اس لئے حد سے زیادہ تواضع سے گریز کریں۔
مہمانوں، پڑوسیوں اور ملنے جلنے والوں کے ساتھ معاملات ایسے رکھیں کہ جن میں تکلف نہ ہو بلکہ خلوص ہو اور آسانی ہو آپ کیلئے بھی اور دوسروں کیلئے بھی۔ اگر کبھی آپ، کسی سے کوئی زیادتی کر جائیں تو جونہی اس کا ادراک ہو معافی مانگنے میں دیر مت لگائیں۔
اللہ کو اپنے بندے بہت عزیز ہیں، ایسے ہی جیسے ماں کو اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں۔ کوئی ہمارے ساتھ زیادتی کر لے تو ہم اسے بھول جاتے ہیں لیکن جب کوئی ہمارے بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو اسے ہم کوشش کے باوجود نہ بھلا پاتے ہیں اور نہ ہی آسانی سے معاف کرتے ہیں۔
اسی طرح اللہ کا بھی معاملہ ہے۔ اس کے حضور کی گئی خطاؤں کا معاملہ ہو تو وہ اللہ کا اور بندے کا معاملہ ہے لیکن اگر معاملہ اللہ کے بندوں کا آ جائے تو اللہ بھی تب تک معاف نہیں فرمائیں گے جب تک جس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو یا جس کی غیبت کی گئی ہو جس پر بہتان لگایا گیا ہو یا جس کا حق کھایا گیا ہو اس سے معافی نہ مانگ لی جائے۔
اللہ پاک ہمیں آسانیاں بانٹنے والا بنائیں۔