Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Dunya Dari

Dunya Dari

دنیا داری

سرگودھا کے نواح میں نانی کا خوب بڑا سا گھر۔ جس کے درمیان میں برامدہ، جہاں ساری دوپہر ہم سب کا ڈیرہ ہوتا۔

وہاں خالہ کے پاس کچھ لڑکیاں کپڑے سلائی سیکھنے، کچھ نالے بنانا سیکھنے، کچھ کروشیا سیکھنے اور کچھ صرف خالہ کے ریڈیو پر فرمائشی نغمے سننے کےلئے اکھٹی ہوتی تھیں۔

اس بڑے سے گھر کے ایک کونے میں نانی کے زیرِ استعمال دو کمرے تھے۔

دوسرے کونے میں نانی کا باورچی خانہ، تیسرے کونے میں گھر کا واحد غسل خانہ جس کے اندر ہی نلکا (ہینڈ پمپ) بھی لگا ہوتا اور چھت ننگی، وہاں کے ضروری لوازمات میں لائف بوائے کا صابن اور مٹی کا جھانواں ہر وقت موجود ہوتے تھے، اور چوتھے کونے میں ممانی کا کمرہ اور ساتھ ملحقہ باورچی خانہ۔

(یہ واحد کونہ آرام دہ تھا) الحمداللہ۔

میں نے بہت سارے ہنر وہاں سے سیکھے جن میں سلائی، کڑھائی، نالے بنانا، چرخہ کاتنا، روئی پیلنا اب اس کی اردو نہیں آتی وہ جو روئی میں چھوٹے چھوٹے کالے بیج ہوتے ہیں انہیں نکالنا، دوپٹوں پر کڑھائی کرنا، کروشیا بنانا وغیرہ شامل ہیں۔

شاید امی کی روح سوچ رہی ہوں گی کہ اس لڑکی نے ہمیں تو کوئی سکھ نہ دکھایا؟ امی جان آپ نے موقعہ ہی کب دیا؟ سیکنڈ ائر کے پرچے بھی سکون سے نہ دینے دئے اور رخصت کردیا۔

ایک تو مجھے باتیں بہت آتی ہیں، اصل بات ادھر ادھر ہو جاتی ہے۔

نانی کے گھر سینا، پرونا سیکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ چیزیں دین کی اور کچھ باتیں دنیا کی بھی سیکھیں۔ کیونکہ آج کا موضوع دنیا داری ہے اس لئے دین کی باتیں پھر کسی دن تفصیل سے بتاؤں گی۔

شام کے وقت پورے گاؤں کی عورتیں روتے بچوّں کو دم کروانے، بھینس دودھ نہیں دے رہی، دودھ سے دہی نہیں بن رہا (جی اس کا بھی دم ہوتا)، بچھو ڈنک مار گیا، آنکھ میں درد، پیٹ میں درد، وغیرہ کا دم کروانے نانی کے پاس اکھٹی ہوجاتیں تھیں۔

میں نے زندگی بھر نانی کو اپنے گاؤں میں کسی کے گھر جاتے نہیں دیکھا۔ نا ہی نانا ابو کی اجازت ہوتی تھی کہیں آنے جانے کی۔ گاؤں میں نانی کی واحد سہیلی زلیخا کبھی کبھار نانی کو ملنے آ جاتی تھی۔

ایک مرتبہ اماں زلیخا کی بہو فرحت کو باری کا بخار شروع ہو گیا۔

جس دن بخار ہونا ہوتا اس دن فرحت تیز تیز سارے گھر کا کام کرتی اور 11 بجے سے پہلے پہلے کام ختم کر کے کپڑے بدل کر لپ اسٹک لگا کر اپنے جہیز والے، سنگل بیڈ پر لیٹ کر بخار کا انتظار شروع کر دیتی۔

ہمیں تو فرحت بہت پسند تھی ہر وقت خوشبوؤں میں بسی ہوئی، یہ لمبے بال شرمیلی سی مسکراہٹ والی۔ ان کے شوہر فوج میں کوئی حوالدار وغیرہ تھے اور فی الحال ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے اس لئے ساس کے رحم وکرم پر تھیں۔

شوہر نے اپنی ماں سے بیوی کا خیال رکھنے کا کہا ہوا تھا لیکن ساس تھیں نا، آتے جاتے کچھ نہ کچھ ٹھونگ مارنے سے باز نہیں آتی تھیں۔

اور پھر فرحت بک بک (ب کے اوپر پیش پڑھنی ہے) روتی تھیں اور چھپ چھپ روتی تھیں۔ میں پھر اصل بات سے ادھر ادھر ہو گئی۔ تو نانی نے اسے دم کرنے ان کے گھر جانا تھا۔

اس دن میری موجودگی میں نانی پہلی مرتبہ کسی کے گھر جارہی تھیں اس لئے میں نے بھی ساتھ جانے کا پروگرام بنا لیا۔

جب ہم پہنچے تو فرحت باجی دو عدد رضائیوں کے اندر تھر تھر کانپ رہی تھیں ان کے دانت بجنے کی آواز ہمیں صاف سنائی دے رہی تھی۔

ارد گرد ہمسایوں کی کچھ خواتین موجود تھیں نانی نے باری کے بخار کا دم شروع کیا ادھر ہمسایوں میں سے کسی نے ان کی ساس سے پوچھا۔

"کیا فرحت نے کچھ کھایا پیا ہوا ہے؟ بیچاری کوبہت تیز بخار ہے۔ اب جو ان کی ساس نے جواب دیا وہ پڑھنے سے زیادہ دیکھنے والا تھا۔

انہوں نے کہا۔ "نہیں تو۔ بیچاری نے صبح سے کچھ نہیں کھایا"۔

اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے اور چھنگلی انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر گول روٹی کی شکل بنائی اور پھر دو انگلیوں کا اشارہ کیا۔ یعنی اشاروں کی زبانی دو بڑی بڑی روٹیاں کھا چکی ہے۔

میں تب شائد چوتھی جماعت میں تھی مجھے مکمل بات کی سمجھ تو نہ آسکی لیکن مجھے لگا کہ انہوں نے کوئی اچھی بات نہیں کی۔

اس کے بعد بھی ہرسال گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جاتے رہے اور سنتے رہے کہ باجی فرحت کے ساتھ ساس سسر کا سلوک اچھا نہیں۔

شاید چھ سال مزید گزرے ہوں گے۔ میں میٹرک کے پرچے دےکر فارغ تھی تو امی نے ہم دونوں بہنوں کو نانی کے پاس بھیج دیا کیوں کہ نانی کی طبیعت خراب تھی۔

ہمارے جانے کے کچھ دنوں کے بعد اماں زلیخا کا پیغام نانی کو ملا کہ مجھے کچھ شہد چاہئے ہے۔ مجھے نانی نے شہد دیا کہ جاکر اماں زلیخا کو دے آؤ۔

چھ سال کے بعد باجی فرحت کے گھر کا حلیہ ہی بدل چکا تھا۔ دو بچوں نے ان کی شخصیت میں اعتماد بھر دیا تھا۔ فرحت باجی کی شرمیلی مسکراہٹ کی جگہ کھلکھلاتی ہنسی تھی۔

بےبس لہجے کی جگہ تحکمانہ اندازِ گفتگو تھا اور سب سے عجیب بات کہ اماں زلیخا بہت کمزور اور لاچار سی ایک کونے میں پڑی ہوئی تھیں۔ مجھے اماں زلیخا کی بے بسی دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔

میرے بیٹھے بیٹھے انہوں نے مکھیوں سے بچاؤ والا سپرے کرنے کےلئے کہا تو باجی فرحت نے سنی ان سنی کردی۔ گو کہ باجی فرحت کا رویہ اچھا نہیں تھا لیکن اماں زلیخا نے بھی تو اپنے دور حکومت میں کچھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔

کیوں نہ آج کی ساس سے کچھ ہتھ ہولا رکھنے کا کہا جائے؟ جب بہو بیاہ کے گھر آتی ہے اس وقت ساس کا عروج اور کروفر دیکھنے والا ہوتا ہے۔ لیکن اسے یاد نہیں رہتا یہ حکمرانی، یہ صحت، یہ بادشاہی ہمیشہ کےلئے نہیں ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی جوانی، صحت، طاقت سب کچھ زوال کی طرف جارہے ہوتے ہیں جب کہ آنے والی کا عروج ابھی دروازے پر کھڑا اندر آنے کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔

ہمیشہ کی بادشاہی تو صرف اللہ کی ہے۔ انسان تو صرف چند سالوں کی مار ہے۔

پتہ نہیں کتنی نسلوں سے، کتنے سالوں سے یہ سلسلہ نسل در نسل چل رہا ہے کہ جو ہمارے ساتھ کیا گیا تھا ہم نے وہی سلسلہ آگے بڑھانا ہے۔

اگر آج کی ساس اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ اپنے گھر انے والی بیٹی سے لینے کی بجائے اسے کھلے دل سے قبول کرے تو اس میں ہماری اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری ہے۔

اور اگر ایسا نہیں کرے گی تو بہت جلد اپنے بڑھاپے تک پہنچ جائے گی اور اس وقت اللہ نہ کرئے کہ کبھی محتاج ہوں لیکن بہرحال یہ ایک امکان تو ہے نا۔ آج کی بہو کل کی ساس ہے۔

اگر آج ہم کسی وقت اپنی بہو کو سوتا دیکھ کر بچوں کو شور کرنے سے منع کر دیں، انہیں تھوڑی دیر اپنے پاس بٹھا لیں، کبھی تھکی ہوئی نظر آئے تو اس سے دو بول پیار کے بول دیں۔

اپنی ہمت کے مطابق کبھی کچھ بنا کر، کبھی کچھ پکا کر اسے دے دیں تو یقین کریں یہ اپ کا صدقہ جاریہ ہوگا۔ کل وہ بھی اپنے گھر آنے والی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گی۔

ہو سکتا ہے آپ کی بہو میں کچھ چیزیں آپ کےلئے بہت نا پسندیدہ ہوں تب بھی اس سے ناراض ہونے کی بجائے اس کےلئے دعا کریں۔ آپ کی خلوصِ دل سے کی گئی دعا کبھی رائگاں نہیں جائے گی۔

اس دعا کا بدلہ ضرور ملے گا اللہ آپ کےلئے کسی اور کی ڈیوٹی لگا دیں گے۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam