Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Dil Ki Awaz

Dil Ki Awaz

دل کی آواز

یہ بات ہے غالباً 1982 کی۔ مئی، جون کے دن تھے۔ ہماری سال بھر کی گندم انہی دنوں میں آ جایا کرتی تھی۔ صبح صبح جب ایک پرسوز آواز سے میری آنکھ کھلی، دیکھا تو شیداں مسلن پچھلے سال والی گندم کو دھوپ لگوانے کیلئے صحن خالی کرتے ہوئے چارپائیاں اٹھانے کے دوران اپنی درد میں ڈوبی آواز میں نعت پڑھ رہی تھی۔

کملی والے محمد (ﷺ) تو صدقے میں جاں

جنہیں آ کے غریباں دی بانہہ پھڑ لئی

اس آواز نے ایک عجیب سماں باندھ دیا تھا۔ وہ بار، بار اسی لائن کو دہرا رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ایسے ہی پڑھتی رہے۔

اسی وقت اماں نے اسے جلدی کام ختم کرنے کا کہا کیونکہ تھوڑی دیر میں اس سال کی نئی گندم پہنچنے والی تھی جس کو دھوپ لگوا کر گندم والے دوسرے بھڑولے میں محفوظ کر دیا جانا تھا۔

جب گندم پسوانی ہوتی تب بھی شیداں آ کر چھان پھٹک کر اسے صاف کر دیتی اور پھر چاچا اللہ وسایا گندم کو گدھے پر لاد کر "تو، تو، تو، والی چکی سے پسوا کر لے آتا"۔

شیداں چھوٹے قد کی، ایک انتہا درجے کی سیدھی سادھی خاتون تھی، اکثر اس کے بال اس کے چھوٹے سے ماتھے کے اوپر آئے رہتے جس سے اس کا ماتھا مزید چھوٹا لگتا۔ اس کے بولنے میں بھی خفیف سا مسئلہ تھا کہ کچھ الفاظ صحیح طرح ادا نہیں کر سکتی تھی۔

کبھی کبھار اس کے اپنے گھر کے بچے اس کے چھپا کر رکھے ہوئے پیسے نکال لیتے تو اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے اور وہ کہتی "مجھے پتہ ہے کہ میرے پیسے کس نے نکالے ہیں، اللہ مجھے اور دیدے گا"۔

شیداں کی ایک ہی بیٹی تھی۔ جس کو وہ کبھی اپنے ساتھ کام پر نہیں لاتی تھی۔ بلکہ اس کی پرورش بڑے نازوں سے کی تھی اور جوان ہونے پر اس کی شادی بہت چھوٹی عمر میں کر دی۔ اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا تھا لیکن اس کی زبان پر کبھی کوئی شکوہ، شکائت یا بددعا نہیں ہوتی تھی۔

بسا اوقات گاؤں کے لوگ اس سے کام کروا لیتے لیکن اس کو مزدوری پوری نہ دیتے۔ لیکن اس نے کبھی کسی کو کچھ نہیں کہا، بس اپنے ذمہ لگائے گئے کام کو پوری دیانتداری سے انجام دیتی تھی اور پنجابی کی نعتیں کام کے دوران پڑھتی رہتی تھی۔

اس سال گندم کی صفائی کیلئے شیداں آئی تو میں بھی نعت کے شوق میں اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ شیداں گندم کے دانے چھاننی میں ڈالتی اور چھاننے کے ساتھ ساتھ بڑے جذب کے عالم میں پڑھتی جاتی۔

تیری خیر ہووے پہرے دارا، روضے دی جالی چم لین دے

اساں وہکھنا ای سوہنے دا نظارہ، روضے دی جالی چم لین دے

ساڈے اللہ نے اے دن ویکھائے

ایتھے ڈیرے غریباں نے لائے

ایتھے ربّ دا حبیب ﷺ اے پیارا

روضے دی جالی چم لین دے

تیری خیر ہووے پہرے دارا، روضے دی جالی چم لین دے۔

اس کی آواز میں ایک الگ ہی تڑپ، درد اور کشش تھی۔ جس کو سن کر دل کی کیفیت عجیب ہو جاتی کہ جیسے کوئی بات کسی کے دل سے نکلے اور جا کر دل پر اثر کرے۔ میں شدید گرمی میں گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود اس کی نعتیں سنتے ہوئے سارا وقت اس کے ساتھ رہی۔

جب شیداں کام ختم کر کے جانے لگی تو اماں نے کچھ گندم اور تھوڑی سی ریزگاری اس کو اجرت کے طور پر دی۔ گندم تو اس نے لے لی اور پیسوں کیلئے اس نے کہا "پیرنی۔ یہ پیسے ابھی اپنے پاس رکھیں، میں اپنی حج کیلئے پیسے جوڑ رہی ہوں، بعد میں آ کر لے جاؤں گی"۔

(گاؤں میں اماں کو تعظیماََ لوگ پیرنی کہتے تھے)۔

مجھے اس کی بات سن کر حیرت بھی ہوئی اور ہنسی بھی آئی۔ کہ اس ریزگاری سے حج کا پروگرام بنا رہی ہے۔ ان ہی دنوں میں میرے پھوپھی زاد بھائی جو اسکواڈرن لیڈر تھے، کی ڈیپوٹیشن آ گئی اور وہ سعودیہ جا رہے تھے۔

اس وقت ان کے تینوں بچے ابھی چھوٹے ہی تھے اور انہیں اپنے ساتھ کسی ملازمہ کی ضرورت تھی۔ ادھر ادھر سب سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی مناسب عورت نظر میں ہو تو ہمیں بتائیں۔ کچھ دنوں کے بعد سنا کہ شیداں کا پاسپورٹ اور ضروری کاغذات تیار ہو رہے ہیں اور اس نے جانا ہے بھائی انور کے ساتھ۔

ہم سب حیرت زدہ تھے کہ پاکستان سے باہر جانا ہے اور ایک ایسی عورت کو ساتھ لے کر جا رہے ہیں جس کو اپنا نام تک پڑھنا نہیں آتا۔ ان دنوں ایسا اتفاق ہوا کہ آپی سعیدہ، بھائی (انور کی بیگم) کسی فوتگی پر گاؤں آئیں تو لوگوں نے ان سے پوچھا "آپ اس شیداں کو کیوں ساتھ لیکر جا رہی ہیں؟ کسی اور عقلمند اور سمجھدار خاتون کو ساتھ لیکر جائیں جو وہاں آپ کے بچوں اور گھر کو اچھے طریقے سے سنبھال سکے۔

میں بھی ان کے مزید قریب ہو گئی تاکہ ان کا جواب سن سکوں۔

آپی سعیدہ نے کہا "نہیں۔ مجھے سیدھی سادھی عورت ہی چاہئے اور شیداں بالکل ویسی ہی ہے جیسی مجھے چاہئے"۔

اللہ نے شیداں کے دل کی آواز سن لی تھی، اس کا بلاوا آپ ﷺ کے دربار میں ہو چکا تھا۔ وہ بھی بڑے نصیبوں والے ہوتے ہیں جن کی اللہ سن لیتا ہے۔ اور وہ بھی بڑے نصیبوں والے ہوتے ہیں جنہیں اللہ کسی کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔

اللہ نے بھائی انور اور سعیدہ آپی کو وسیلہ بنا دیا تھا تو اب وہ کیسے کسی اور کا انتخاب کر سکتے تھے۔ جلد ہی کاغذی کاروائیاں مکمل ہو گئیں اور شیداں سعودیہ پہنچ گئی۔

جس کی حج کی خواہش پر لوگ ہنس پڑتے تھے، جس کی نعتیں سن کر اس پر ترس آتا تھا اور آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ غریب، بے آسرا اللہ کے پیارے حبیب محمد ﷺ کے ملک میں پہنچ گئی تھی۔

نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے

اس کے بعد وہاں شیداں نے ایک سے زیادہ حج کئے بہت مرتبہ اس کی حاضری آپ ﷺ کے دربار پر ہوئی اور بہت مرتبہ اللہ کی مہمان بننے کی عزت نصیب ہوئی۔ اس کی وفات غالباً 1990 ستمبر میں ہوئی۔ اس وقت تک میں اپنے بچوں اور گھرداری میں مصروف ہو چکی تھی اس لئے اب گاؤں جانے کا موقع کم کم ہی ملتا تھا۔

لیکن اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ عین اسی دن میرے شوہر کے پھوپھی زاد بھائی کی فوتگی کی وجہ سے ہم سب لوگ گاؤں میں ہی تھے۔

جب گاؤں کی مسجد میں اعلان ہوا کہ شیداں کا انتقال ہو گیا ہے اور 5 بجے جنازہ ہو گا۔ تب جتنے لوگ ہمارے ایک رشتہ دار کے جنازے کیلئے اکھٹے تھے ان سب نے شیداں کا بھی جنازہ پڑھا۔

مجھے یاد ہے وہ اوائل ستمبر کا ایک اچھا خاصا گرم دن تھا۔ جونہی اس کا جنازہ اٹھایا گیا ایک بادل کا ٹکڑا اچانک آیا اور اس نے میت کے اوپر چھاؤں کر دی۔ یہ بادل کا ٹکڑا اس کے اوپر اس وقت تک سایہ فگن رہا جب تک کہ میت کو قبرستان میں لے جا کر رکھ نہیں دیا گیا۔

جونہی چارپائی کو رکھا گیا وہ بادل کا ٹکڑا برسنا شروع ہو گیا۔ تب تک ہلکی ہلکی بارش برستی رہی جب تک شیداں کو قبر میں اتار نہیں دیا گیا۔

سچ ہے کہ دنیا ہمیں، ہمارے ظاہر سے جانتی ہے۔ اور ہمارا اللہ ہمیں، ہماری نیت سے جانتا ہے اور جو دل کی آواز سے اس در پر حاضری کی دعائیں مانگتے ہیں ان کے بلاوے آ جاتے ہیں۔ اور جب بلاوے ہو جائیں تو وسیلے بھی بن جاتے ہیں۔

اللہ پاک ہم سب کی مقبول حج اور بار بار مقبول حاضریوں کے وسیلے بنا دیں۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan