Aik Purani Yaad
ایک پرانی یاد
یہ 1981 مارچ کا مہینہ تھا۔ موسم میں بہار کے رنگ کھلے ہوئے تھے۔ میں آجکل پنڈی سے سرگودھا امی کی طرف آئی ہوئی تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ، شادی نومبر میں ہوئی تھی تو سرما کا موسم تو کسی خوشگوار خواب کی طرح گزر چکا تھا۔ آجکل میں اور میرے شوہر 20 دن کیلئے سرگودھا میں تھے۔ اب جب میں سرگودھا آئی تو میری ساری کزنز پروگرام بنا کر، ایک دن میرے ساتھ گزارنا چاہ رہی تھیں۔ ان دنوں ندیم اور شبنم کی فلم آئینہ بڑی سپر ہٹ جا رہی تھی۔ کزنز جو کہ میری بہترین سہیلیاں بھی تھیں، ان کے ساتھ ہی میں نے بھی شاہین سنیما پر فلم دیکھنے کا پروگرام فائنل کر لیا۔
دوپہر کو یہ ساری چنڈال چوکڑی میرے گھر پہنچ گئی۔ امی نے اور بہن نے بہت اچھا کھانا بنایا ہوا تھا۔ سیکنڈ شو کیلئے جب ہم ساری لڑکیاں نکل رہی تھیں، تو میرے شوہر نے مجھے کہا کہ تم نے نہیں جانا۔ شو کا وقت نکلا جارہا تھا، میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ بھائی نے بہن اور باقی ساری لڑکیوں کے ساتھ جانا تھا، اس زمانے کی سب سے بڑی تفریح فلم دیکھنا ہوتی تھی۔ آخر کار وہ لوگ چلے گئے، جانے سے پہلے میری کزن شنی نے(جو کہ ہم دونوں کی فرسٹ کزن بھی ہے) بہت زور دیکر انہیں کہا کہ، مجھے ان کے ساتھ جانے دیں۔
لیکن قریشی صاحب کی ناں، ہاں میں نہیں بدلی۔ ان کے جانے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ میں بہت دکھی ہوں کہ، سہیلیوں کے ساتھ فلم دیکھنے نہیں جاسکی۔ تو مجھے کہتے ہیں "چلو آو ہم دونوں وہی فلم دیکھنے چلتے ہیں، " مجھے فلم کا اتنا شوق نہیں میں تو مل کر ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتی تھی، میں نے رخساروں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہاقصہ مختصر کہ، ہم دونوں بھی فلم دیکھنے پہنچ گئے۔ انٹرویل کی روشنی ہوئی تو دیکھا کہ، اگلی لاین میں ساری لڑکیاں پاپڑ کرارے اور بوتلوں کے ساتھ فل مست ماحول میں انجوائے کررہی تھیں۔ انٹرویل کے بعد والی فلم بھی دکھی ہی تھی۔
ہال میں زیادہ خواتین فلم دیکھ کر رو رہی تھیں، اور میں اپنی سہیلیوں کو دیکھ دیکھ کر رو رہی تھی(عقل دا گھاٹا)۔ خیر کچھ کھٹی میٹھی یادیں لیکر واپس پنڈی پہنچی، اب تھوڑی تھوڑی گرمی شروع ہورہی تھی۔ سرگودھا میں تو اچھی خاصی گرمی تھی، البتہ پنڈی میں ابھی بھی کسی کسی وقت خنکی ہو جاتی تھی۔ سرگودھا میں قیام کے دوران ملنا ملانا چلتا رہا، تو وہاں میری ایک کزن بڑے جدید فیشن کا سلا ہوا لان کا سوٹ پہن کر مجھے ملنے آئی۔ مجھے بہت اچھا لگا، اس سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ نئی ورائٹی آئی ہے، لان کی اور اس کا نام "سبولی ہے۔
میں نے پنڈی آتے ساتھ شوہر سے کہا کہ، میں نے سبولی کا سوٹ لیناہے۔ اس میں ایک ہی کلر کے گہرے اور ہلکے شیڈ میں پھول بنے ہوتے ہیں۔ ان دنوں میرے سسر ابا حیات تھے اور ہمارے گھرانے میں خواتین کا بازار جانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ میرے پاس میرے اپنے پیسے تھے، جو کہ سرگودھا سے آتے ہوئے بھائی نے مٹھی میں دئیے تھے۔ اس کے علاوہ امی نے بھی کچھ پیسے دئیے تھے۔ جب شام کو شوہر آئے تو میرے کہنے کے مطابق سوٹ لے آئے، لیکن جتنے پیسے میرے حساب سے بنتے تھے، ان میں سے کچھ پیسے بچ گئے۔
اب شوہر نے مجھے خوش کرنے کیلئے ایک سوٹ الکرم کا بھی خرید دیا، جس میں کچھ پیسے میرے اور کچھ اپنے پاس سے ڈال دئیے۔ الکرم والے سوٹ کا کپڑا تو بہت اچھا تھا، لیکن پرنٹ مجھے پسند نہیں آیا۔"یہ کیا آپ رضائی والا پرنٹ اُٹھا کر لے آئے ہیں؟ میں نے منہ بسور کے کہا" تو کیا ہوگیا، کونسے سارے پیسے تمہارے لگے ہیں؟ آدھے سے زیادہ تو میں نے اپنے پاس سے ڈالے ہیں، انہوں نے غصے سے کہا"لیکن میرے پیسے تو ضائع ہو گۓ نا؟ میں نے بھی روتے ہوئے جواب دیا۔ کتنے پیسے تھے تمہارے؟ یہ لوشوہر نے پیسے نکال کر میرے سامنے پٹخے۔
"ایک تو میرے پیسے ضائع کر دیئے، اوپر سے مجھے ڈانٹ بھی رہے ہیں "پیسے اٹھا کے واپس ان کے سامنے پھینکے اور خود رونے بیٹھ گئی۔ انہوں نے پیسے اٹھائے اور پرزہ پرزہ کر کے ہوا میں پھینک دئیے۔ ساس امی بیچاری ہکا بکا ہمارے کمرے کے دروازے میں کھڑی ہوئیں یہ سب دیکھ رہی تھیں۔ میں نے جب دیکھا کہ میرے پیسے پھاڑے جا چکے ہیں، تو میرے رونے کی سپیڈ مزید تیز ہو گئی۔ ساس نے سرتاج کو کمرے سے باہر بھیجا، مجھے پیار کر کے چپ کروایا، میرے پھٹے ہوئے پیسوں سے زیادہ پیسے مجھے دئیے، اور ساتھ ساتھ کہتی جارہی تھیں "یہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں ان کی شادی کر کے"؟
یہ دونوں تو اوپر تلے کے بچوں کی طرح، ایک دوسرے کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے اور ایک دوسرے کے ساتھ بھی نہیں۔ اس کے بعد زندگی کے 20 سال تک مجھے سرتاج نے کبھی کچھ نہیں خرید کر دیا، نا ہی تحفہ دیا۔ البتہ پیسے دے دیتے تھے۔ تو پیاری پیاری لڑکیوں اور بیٹیوں کو یہ کہنا تھا کہ، شادی کے بعد دوستی اپنے شوہروں سے لگائیں اور شوہر کی لائی ہوئی بری سے بری چیز کی بھی ڈھیر ساری تعریفیں کریں، تا کہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ آپ کو مزید تحفے دیتے رہیں۔ ویسے ایک بات اور بھی بتانا چاہتی ہوں کہ ہر مرد کی خوبیاں اور خامیاں الگ ہوتی ہیں، تو جلنے کڑھنے کی بجائے ان کی خوبیوں کو سامنے رکھا کریں، کیونکہ زندگی ان ہی کے ساتھ ہے۔