Mazar
مزار
غریب بے شک ٹوٹے گھروں میں سردیوں کی سرد راتوں میں بغیر چادر کے ہو مگر قبروں پر چادریں ہونا لازمی ہیں۔ درباروں کی آڑ میں کتنے لوگوں کی حق تلفی کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ہزاروں روپے درباروں کے غلوں میں بطور ثواب ڈالے جاتے ہیں لیکن درباروں کے باہر موجود غریب اور مستحق لوگوں کو 10 روپے دینے کے روادار نہیں۔ پیسوں کی ضرورت زندہ لوگوں کو ہوتی ہے نہ کہ درباروں پر موجود پیروں کی قبروں کو۔ مزاروں کی مرمت، دیکھ بھال اور دوسرے اخراجات پر کئے روپے خرچ کر کے ہم نیکی کا عمل سمجھتے ہیں لیکن اصل نیکی کے کام اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئیے گئے پیسوں پر ہم کہیں سوال کرتے ہیں ہاتھ کیوں پھیلا رہا ہے؟ کماتا کیوں نہیں؟ اچھا بھلا ہے۔ مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ مزدوری کرے لیکن کمانے کی بجائے ہاتھ پھیلانا آسان کام ہے۔ یہ تو انکا پیشہ ہے۔ سفید پوش کا حق مارتے ہیں کبھی سفید پوش کو مانگتے دیکھا ہے۔ جیسی باتیں سننے کو ملتی ہیں، کبھی ان لوگوں کو غربت سے لڑتے دیکھا ہے؟
اگر ہم لوگ مزاروں کے غلے بھرنا چھوڑ کر غریبوں کے پیٹ بھرنا شروع کر دیں تو کوئی غریب غریت کی جنگ لڑتے خود کو خودکشی کرنے پر مجبور نہ کرے۔ درباروں، مزاروں کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنانے کی کوشش ہے بہترین ماربل، کارپٹ، چادریں قبروں پر سجائی جاتی ہے اور دوسری طرف غریب ٹوٹی دیواروں، بغیر دروازے کے گھروں، جھونپڑیوں، جھگیوں اور مٹی کے بنے مکانات اور ایک کمرے کے گھر میں پورا خاندان زندگی بسر کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ ایسی تلخیوں سے صرف غریب لڑتا ہے نہ کہ پیروں، مزاروں کے مالک اور صاحبزادے۔
لاکھوں کڑوڑوں روپے درباروں کے غلوں میں موجود ہیں اگر وہ غریبوں پر خرچ کئیے جائیں تو ان کی زندگی میں تبدیلی رونما ہوسکتی ہے ان کے حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ قبروں میں موجود مُردوں کو دعاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ پیسوں کی۔ ان پیسوں کے اصلی حقدار غریب غرباء اور خواجہ سرا ہیں۔ اور انہی کی ضروریات پوری کرنا بہترین عمل ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ تمام پیسے پیروں کی آل اولاد اپنی عیاشیوں میں خرچ کرتے ہیں یہاں تک کہ وہاں پر کام کرنے والے عملے کو انکی پوری تنخواہیں بھی نہیں ملتی، لوگوں کی محنت اور حق حلال کی کمائی غریبوں کی ضروریات اور پیٹ بھرنے کے کام آئیں نہ کہ پیروں کی اولاد کی عیاشیوں میں خرچ ہو۔ مزاروں کی آڑ میں کتنے غریبوں کی حق تلفی ہو رہی ہے کتنے ہی خواجہ سراہ اور مستحق لوگ بھوکے سوتے ہیں۔
پاکستان میں امیر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی عمارت کو سجانے میں اہم کردار ہی ہمارا ہے۔ پڑھے لکھے ہوتے ہوئے بھی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں کیونکہ ہم انسان بلندیوں پر تو پہنچنے کے خواہشمند ہیں لیکن گہرائیوں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں پر ایک نظر ڈالنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے۔ پانی میں اتر کر ہی پانی کی گہرائی معلوم ہوتی ہے ایسے ہی ان مزاروں کی حقیقت وہاں جا کر اردگرد کا جائزہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کیسے لوگوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ دعا صرف اللہ کی زات سے کی جا سکتی ہے نہ کہ قبروں میں موجود مُردوں سے ایک مردہ کیسے اللہ سے ہماری سفارش کر سکتا ہے؟