Colonel Ki Biwi
کرنل کی بیوی
ملک کے ایک طاقتور ادارے کے، طاقتور آفسر کی، طاقتور رشتے میں منسلک خاتون نے بلڈی سویلین کی لگائی گئی رکاوٹ کے سامنے رکنا گوارہ نہیں کیا، اور یہی وجہ کرنل صاحب کی بیوی اور بلڈی سویلین کے درمیان یک طرفہ "تو تڑاخ" کا باعث بن گئی۔
خاتون کی سمجھداری کہیں کہ انہوں نے صرف صلواتیں سنانے پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی مدد کے لئے کمک نہیں بلائی ورنہ وہ مناظر دوبارہ دیکھے جا سکتے تھے جب خیبرپختون خوا میں فوجی افسروں نے چالان کرنے پر نیشنل ہائی ویز کے افسروں کو بپچ سڑک میں خوب مارا پیٹا تھا۔ موٹروے پولیس کی درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق، فوجی افسر اور جوان انہیں زدوکوب کرنے کے بعد اٹھا کر اٹک قلعہ میں لے گئے جہاں انہیں حبس بے جا میں رکھا گیا۔ بعد میں موٹروے پولیس کے اعلیٰ افسران نے منتوں ترلوں سے ان اہلکاروں کی جان خلاصی کرائی۔
معاملے کا سوشل میڈیا پر چرچا ہوا تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس واقعہ کو قانون کے تحت نمٹایا جائے گا۔ اب واللہ اعلم خطاوار کو سزائیں ہوئیں یا نہیں، یہ تو شاید مدعی کو بھی معلوم نہ ہو پاہا ہو گا۔
خیر درج ذیل واقعے پر بھی غور کیا جائے تو اس کی صرف ایک وجہ نظر آتی ہے کہ ملک میں قانون اور آئین کی وقعت نہ ہونے کی وجہ سے اداروں میں توازن نہیں ہے۔ لاٹھی والوں نے، لاٹھی کی وجہ سے خود کو حاکم اور دوسروں کو محکوم بنا لیا ہے۔ کرنل صاحب کی بیوی کی گفتگو بھی اسی کی غمازی کرتی ہے، ان کی ہرزہ سرائی کے پیچھے فقط متعلقہ ادارے کی برتری کا زعم نظر آتا ہے۔ جس میں وہ شاید غلط بھی نہیں، کیونکہ اگر حقائق کو پرکھا جائے تو اس احساسِ برتری کی وجوہات بھی ڈھکی چھپی نہیں۔
خاتون نے اس پھڈے میں کئی جگہ رعب جھاڑا کہ وہ کرنل کی بیوی ہیں، ایک جگہ تو ان کا منہ سے نکلا جملہ یہ تھا کہ میں آرمی آفیسر کی بیوی ہوں کوئی معمولی بات نہیں ہے! وہ جس غیر معمولی ادارے کی نسبت سے خود کو غیر معمولی قرار دے رہی ہیں، ماضی میں اس ادارے کے غیرمعمولی سربراہان پانچ مرتبہ آئین کو توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کہنے کو تو یہ غیر معمولی عمل سنگین غداری کے زمرے میں آتا تھا، جس پر وہ غیر معمولی سزاؤں کی مستحق تھے، لیکن اس کے برعکس ملکی آئین نے انہیں غیر معمولی تحفظ فراہم کیا ہے۔ یوں خاتون کا اپنے غیر معمولی ہونے پر اترانا نہ صرف سو فیصد بجا تھا بلکہ وہ اپنے غیر معمولی رویے پر بھی برحق تھیں۔
یہ تو سراسر بلڈی سویلین کی نااہلی تھی کہ وہ اس کا ادراک نہیں کر پائے اور قانون کی سربلندی کی خاطر گاڑی کے نیچے آنے کو تیار تھے۔ انصاف کی امید رکھنا تو گویا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ نہ تو ہمارے یہاں آئین اتنی وقعت رکھتا ہے اور نہ ہی قانونی ادارے اتنی سکت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اس معاملہ کی بابت معلوم کر سکیں۔