Qaumi Parcham Meri Pehchan Aur Meri Shanakht
قومی پرچم میری پہچان اور میری شناخت
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی پاکستان کا جشنِ آزدی منایا گیا مگر وہ جوش و خروش نظر نہ آیا جو دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ معیشت کی تنگی، حکومتی ناقص پالیسیاں اور مہنگائی کا طوفان ہے جس نے عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ ماہِ اگست شروع ہوتے ہی بازاروں میں ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار، رنگ برنگی ملبوسات، سجاوٹی سامان، پاکسانی جھنڈے کے بیجز نظر آنے لگتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے اس برس تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ تھیں۔ مگر اس ہوشربا مہنگائی کے باوجود عوام نے ملک کے ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق محبت کا اظہار کیا۔ حکومت نے بھی مختلف تقریبات منعقد کیں اور سرکاری عمارتوں کو بھی برقی قمقموں اور پاکستانی جھنڈوں سے سجایا گیا۔ اب ماہِ اگست اختتام پذیر ہے اورتقریباً سبھی تقریبات بھی ختم ہوگئی ہیں۔ اس لئے اب کچھ تقاضے ہیں اس جشن منانے کے جن کا ہم نے خیال رکھنا ہے۔
گزشتہ ہفتے گاؤں والے گھر کی طرف جاتے ہوئے سڑک پر پاکستانی پرچم پڑا دیکھا تو آگے جا کر پھر واپس ہوا، پرچم کو اٹھایا، صاف کیا اور پاس رکھ لیا۔ دل افسردہ ہوا کہ ہم جشن آزادی تو مناتے ہیں مگر قومی پرچم کی حرمت کا خیال نہیں کرتے جو کہ ایک بالکل غلط طرزِ عمل ہے۔ مگر اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ یہ تو قومی پرچم ہے، ہم تو حرمتِ انسان، حرمتِ مال و جان، احترامّ آدمیت کو بھی بھلا بیٹھے ہیں جس کا حکم ہمارے پیارے نبی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیں دیا۔ ہم وطن کی محبت کے اظہار کے لئے پاکستانی جھنڈے خرید کر اپنے گھر، دکان اور گاڑی پر لگاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ یومِ آزدی منانے کا بعد یہی جھنڈے ہمیں گلیوں، سڑکوں اور نالیوں میں پڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا قومی پرچم ہمارا فخر اور ہماری پہچان ہے اور نہ صرف ماہِ اگست بلکہ سارا سال ہمیں اس کے تقدس، حرمت، عزت و تکریم کا خیال رکھنا ہے۔ ہمارے اسلاف نے یہ ملک اپنے جان و مال کو قربان کرکے حاصل کیا تھا اور ہمیں بھی اس کا اُسی طرح خیال رلھنا ہے۔
بچپن میں والدِ گرامی پروفیسر ایف ڈی عارف (مرحوم و مغفور) یومِ آزادی منانےکے لئے ہمیں سجاوٹی چیزیں، پاکستانی پرچم کی بنی جھنڈیاں لا کر دیتے، تاریخِ پاکستان، مقصدِ پاکستان و محبتِ پاکستان کے ساتھ ساتھ پرچم کی عزت و تکریم کا درس بھی دیتے۔ ہم دونوں بہن بھائی بڑے جوش و خروش سے گھر کی سجاوٹ کرتے، والدہ لذید کھانے تیار کرتیں اور پاکستان کی بقا و خوشحالی کے لئے دعا ہوتی۔ اس طرح گھر والے مل کر یومِ آزادی مناتے، نہ کوئی باجا ہوتا، نہ شورشرابا اور نہ ہی بیہودہ قسم کے گانے۔ دن ڈھلتے ہی ہم شہر کا رخ کرتے جہاں مختلف طرح کے پاکستانی ماڈل بنے ہوتے جن میں تحریکِ آزادی کو اجاگر کیا جاتا۔ برقی قمقموں میں یہ ماڈل بہت خوبصورت منظر پیش کرتے۔ لوگوں کا رش ہوتا مگر پرسکون، وطن کی محبت سے سرشار ہر بندہ ماڈل بنانے والوں کو دادِ تحسین دیتا اور ان کی کاوش پر مالی مدد بھی کر دیتے تھے۔ جیسے جیسے وقت گرتا گیا یہ سب چیزیں اور رونقیں ختم ہوگئیں۔ یومِ آزادی کے اگلے روز ہم سب چیزوں کو اچھے طریقے سے سمیٹتے تاکہ بحرمتی نہ ہو اور اگلے سال پھر استعمال کے قابل ہوں۔
قومی پرچم کسی بھی قوم کی عظمت و ہمت کا نشان ہوتا ہے، اس کا احترام حب الوطنی کی علامت ہے۔ ہمارا پرچم ہمیں اپنی جان سے عزیز ہونا چاہیے اور اس کی عزت و تکریم کے لیے ہمیں دوسروں کو بھی تعلیم دینی چاہیے۔ آج کے نوجوانوں کو تحریکِ پاکستان اور حصولِ وطن کے لئے اسلاف کی قربانیوں کو بیان کرنا چاہیے تاکہ اُن کے دلوں میں وطن کی محبت راسخ ہو جائے۔ جب قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ہجرت کرکے آنے والوں کی گاڑیاں لاشوں سے بھری ہوتی تھیں، قافلے لٹے پٹے آتے۔ برطانیہ کے ایک اخبار "ڈیلی میل" کے نمائندے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہوں جس سے قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد بنا۔ نمائندہ اس طرح آنکھوں دیکھے حال کی منظر کشی کرتا ہے کہ، " ایک ریل گاڑی جو بھارت سے پاکستان آ رہی تھی اس کی 9 بوگیاں تھیں اور تقریبا 1000 مسافر سوار تھے۔ جب گاڑی لاہور ریلوے اسٹیشن پر آکر رکی تو 1000 میں صرف 8 مسافر زندہ تھے، باقی مسافروں کو بلوائیوں نے شہید کر دیا تھا۔ یہ جو 8 مسافر منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے وہ بھی بری طرح زخمی تھے، پوری ٹرین شہداکے خون سے بھری ہوئی تھی"۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے، اس جیسے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے، آگ و خون کا یہ سرخ کھیل ہندوستان کے طول و عرض میں جاری تھا جس کا زیادہ تر نشانہ نہتے مسلمان بن رہے تھے۔ سکھوں کے مسلح جتھے پاکستان کی طرف آنے والے قافلوں کو روک کر ظلم کی تاریخ رقم کرتے رہے۔ عورتیں اغواء ہوگئیں، معصوم مسلمان بچے کرپانوں پر اچھالے جا رہے تھے۔ ہندوؤں کی وحشت و بربریت اپنے عروج پر تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ جب قیام پاکستان کے بعد پہلی عید آئی تو ایک مال گاڑی لاہور اسٹیشن پر آکر رکی جس کی ایک بوگی میں بچوں کے سر اور کٹی ہوئی عورتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ریل گاڑی کی اُس بوگی کے باہر لکھا ہوا تھا
"پاکستان کے لیے عید کا تحفہ"۔ یہ کچھ واقعات ہیں تاکہ ہمیں اپنے ملک اور آزاد وطن کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو سکے۔
ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا جس کا نعرہ " پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ" تھا۔ مگر اسلامی بنیاد پر بننے والے ملک میں آج رشوت جھوٹ، بددیانتی، ظلم و جبر، بربریت، ناانصافی، کرپشن کا بازار گرم ہے۔
ہمارےاسلاف نے جس عظیم مقصد کیلئے لاکھوں قربانیاں دییں، گردنیں کٹائیں، عورتوں اور بچوں کے اعضاء کاٹے گئے آج ہم ان قربانیوں کو بھول کر الٹی راہ چل پڑے ہیں۔ ہمیں اپنے نظریے، اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا ہے تاکہ ہمیں بھی تاریخ میں اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کیا جائے اور بروزِ قیامت ہم اپنے اسلاف کا سامنا کرنے کے قبل ہوں۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو نہ صرف قومی پرچم کا احترام سکھانا ہے بلکہ اُن کو محبِ وطن پاکستانی بنانا ہے۔ پاکستان زندہ باد