Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (7)

Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (7)

میں ہوں پاکستان، سنو میری کہانی (7)

تقسیمِ ہند برصغیرکی تاریخ کا نہایت اہم مگر افسوس ناک اور الم ناک باب ہے جو انگریز اور ہندو کی سازش کی بھینٹ چڑھ گیا۔ شروع میں تحریک پاکستان کے جو حامی تھے ان میں سے بھی کچھ لوگ کانگرس کی سازشوں کی بھینٹ چڑھے اور اس تحریک سے علیحدہ ہو گئے۔ برسوں کی کاوشوں کے نتیجہ میں آزاد ملک حاصل تو ہوا مگرغیر منصافانہ تقسیم نے تہذیبی، ثقافتی اور خاندانی رشتے اور رفاقتیں دو لخت کردیں۔

1945 - 1946 کے عام انتخابات کے نتائج، شملہ کانفرس کی ناکامی اور عبوری حکومت کے مسائل کے بعد حکومتِ برطانیہ نے جانچ لیا کہ مسلم لیگ اور کانگرس کبھی اکھٹے نہیں چل سکتے۔ ان دونوں اقوام کے درمیان ہمیشہ آئینی بحران برقرار رہے گا اور ہندوستان کو متحد رکھنا نا ممکن ہے۔ اسی سال برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے اور لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آئی۔ لیبر پارٹی کا سربراہ کلیمنٹ ایٹلی (Clemint Attli) اس جیت کے بعد برطانیہ کا وزیرِ اعظم بنا۔ برطانیہ کی قانون ساز اسمبلی میں ایٹلی نے 20 فروری 1947 کو یہ اعلان کیا کہ حکومتِ برطانیہ ہندوستان کی تقسیم پر بہت سنجیدہ ہے اور کوشش ہے کہ جون 1948 سے پہلے ہندوستان کو اسکی عوام کی رائے کے مطابق تقسیم کرکے معتبر اور قابل رہنماوں کے حوالے کر دیا جائے۔

اس منصوبے کو پایہِ تکمیل تک پہچانے کے لئے لارڈ ویول کی بجائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا وائسرائے ہوگا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن 22 مارچ 1948 کو ہندوستان پہنچا جس کی شروع میں کوشش تھی کہ کابینہ مشن کی تجاویز کے مطابق مسئلہ حل کیا جائے مگر ہندوستانی رہنماوں کی ملاقاتوں کے بعد اس نے اندازہ لگا لیا کہ کابینہ مشن کی سفارشات پر عمل درآمد کروانا ناممکن ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جواہر لال نہرو سے خفیہ طور پر مل کر ایک تقسیم کا منصوبہ تیار کیا اور مسلم لیگ کے رہمناؤں سے تجاویز لیے بغیر ہی حکومتِ برطانیہ سے منظور کروا لیا۔

منصوبہ کی منظوری کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جون میں سفارشات ہندوستان کے رہنماؤں کو پیش کیں۔ مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناحؒ، لیاقت علی خان اور سر عبدالرب نشتر شامل تھے جبکہ کانگرس کی طرف سے جوال لال نہرو، سردار پٹیل، اچاریہ کرپلانی اور بلدیو سنگھ شامل ہوئے۔ تمام رہنماوں کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد 3 جون 1948 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان کر دیا جسے تاریخ میں"3 جون کا منصوبہ" کہاجاتا ہے۔ اس منصوبے میں ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔

منصوبے کے چیدہ چیدہ نکات تھے کہ ہندوستان میں دو الگ الگ مملکتیں قائم کر دی جائیں، پنجاب اور بنگال کو مذہبی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، سندھ اور آسام کی اسمبلیاں کسی بھی ملک کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں، صوبہ سرحد اور سلہٹ کے اضلاع میں رائے شماری کروائی جائے، آزاد ریاستیں کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ خود کریں اور برصغیر کی مسلح افواج اور مشترکہ اثاثوں کی تقسیم کر دی جائے گی۔ لارڈماؤنٹ بیٹن، قائداعظمؒ، نہرو اور بلدیو سنگھ نے آل انڈیا ریڈیو پر خطاب کیا اور منصوبے پر اپنی رضامندی ظاہر کر دی۔

منصوبے کے مطابق ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں پاکستان اور ہندوستان (بھارت) میں تقسیم کیا جانا تھا۔ مسلمان اکثریتی صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے دونوں ریاستوں میں سے کسی ایک سے الحاق کا فیصلہ خود کریں۔ پنجاب اور بنگال میں صوبوں کی تقسیم کے حق میں فیصلہ ہوا، مغربی پنجاب اور مشرقی بنگال کے علاقے پاکستان کا حصہ بنے۔ سندھ کی اسمبلی نے اکثریتی ووٹ پاکستان کے حق میں دیا۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں ریفرنڈم ہوا جس میں عوام نے پاکستان کو منتخب کیا۔ قانونِ آزادیِ ہند 1948 کے مطابق پنجاب اور بنگال کی تقسیم اور حد بندی کے لئے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دو حد بندی کمیشن (Boundary Commission) جولائی 1948 کو بنائے۔

اس کمیشن میں پاکستان اور بھارت کے دو دو نمائندے شامل تھے اور سر سیرئل ریڈ کلف (Sir Cyril Radcliffe) اس کا سربراہ تھا۔ پنجاب حد بندی کمیشن کے لیے مسلم لیگ کی طرف سے نمائندگی جسٹس دین محمد اور جسٹس محمد منیر نے کی جبکہ کانگرس کی طرف سے نمائندگی جسٹس مہر مہاجن اور جسٹس تیجا سنگھ نے کی۔ بنگال حد بندی کمیشن کے نمائندگی کے لئے مسلم لیگ نے ابو صالح محمد اکرم اور ایس اے رحمٰن اور کانگرس نے سی سی سیواس اور بی کے مکر جی کو نامزد کیا۔ سرحدوں کے تعین کرتے وقت جب ممبران کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو سکا تو ریڈکلف نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فیصلہ پاکستان کے خلاف کر دیا کیونکہ وائسرائے کا پہلے سے ہی نہرو سے گٹھ جوڑ ہو چکا تھا۔

تقسیمِ ہند کے وقت ہندوستان میں تقریباََ 526 چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔ قانونِ آزادیِ ہند 1948 کے مطابق ان کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں جس کے ساتھ چاہیں شامل ہو جائیں۔ قیامِ پاکستان تک ماسوائے حیدرآباد، جونا گڑھ اور کشمیر کے تقریباََ ساری ریاستیں خوش اسلوبی سے پاکستان یا بھارت سے الحاق کر چکی تھیں۔ یہی ریاستیں پاکستا ن اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی رہیں۔ اس غیر منصفانہ تقسیم کے بعد ہندوستان کے طول و عرض میں فسادات پھوٹ پڑے اور فرقہ وارانہ فسادات جنگل کی آگ کی طرگ بھڑک اُٹھے۔

1946 میں فسادات کی وجہ سے سب سے زیادہ تباہی بہار اور بنگال میں ہوئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو شدت سے یہ کہہ کر بھڑکایا گیا کہ اب مسلمانوں کو اپنا ملک مل گیا ہے تو وہ اب ادھر جا کر رہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق ان ہنگاموں کے دوران (اگست 1947 سے مئی 1948) تقربیاََ ایک کروڑ چالیس لاکھ مسلمانوں کو بے گھر ہونا پڑا جبکہ چھ لاکھ افراد مارے گئے۔ ان فسادات نے انسانی رشتوں کا تقدس اور اخلاقیات کو ختم کرکے رکھ دیا اور لوگ ہجرت کرنے پر مجبور وہ گئے۔

دنیا کی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی اور اس دوران جو معاشرتی بدنظمگی اور خلفشار پیدا ہوا اس کی مثال کہیں نہی ملتی۔ ہندوستانی رہنماوں کی منظوری کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے کوبرطانیہ کی پارلیمنٹ نے "قانونِ آزادیِ ہند" کے عنوان سے قانونی طور پر منظور کر لیا۔ اس طرح 14 اگست 1947 کی رات 12 بجے ہندوستان دو آزارد ریاستوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوگیا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali