Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (6)

Main Hoon Pakistan, Suno Meri Kahani (6)

میں ہوں پاکستان، سنو میری کہانی (6)

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں کچھ واقعات اور دن ایسے بھی آتے ہیں جن کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ "تاریخ کسی بھی قوم کا حافظہ ہوتی ہے"، حافظہ ہی انسان کو تجربہ کار بناتا ہے کیونکہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے حال و مستقبل کے لیے درست فیصلے کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو قوم اپنی تاریخ سے روگردانی کرتی ہے یا اپنے ماضی کے واقعات کو یکسر بھول جاتی ہے تو اُس قوم کا حافظہ کمزور ہو جاتا ہے۔

ملکی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں اور انہیں بھولنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ان تاریخی واقعات اور فیصلوں کی وجہ سے اُس قوم کی منزل اور مستقبل کا تعین کرنے میں نہ صرف مدد ملتی ہے بلکہ رہنما اصول بن جاتے ہیں۔ ایسے دن اور واقعات راتوں رات نہی ہو جاتے بلکہ اُن کے پیچھے سالوں سال کی محنت اور مضبوط نظریات ہوتے ہیں۔ یہی نظریات قوموں کے اندر پختہ ہوتے ہے تو وہ قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔

23 مارچ 1940 بھی پاکستان کی تاریخ میں ایسا ہی ایک اہم دن ہے جس دن بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے شب و روز کی محنت اور کاوشوں کے نتیجے میں مملکتِ خداد کے معرضِ وجود میں آنے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ اس سے پہلے قائداعظمؒ کافی بار مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے الگ الگ وطن کے بارے میں مختلف مواقعوں و تقریبات اور جلسوں میں اعلانات کرتے رہے۔ 1928 میں نہرو رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے بعد آپ نے فرمایا تھا کہ آج سے ہمارے اور ہندوؤں کے راستے الگ الگ ہو چکے ہیں۔

23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹوپارک (جہاں اب مینارِ پاکستان بنا ہوا ہے) میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ برسوں سے جاری انگریز ہندو گھٹ جوڑ کو توڑنے اور اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی خاطر مسلمانوں کا الگ ملک ہونا چاہیے۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام بہت پہلے ہی آچکا تھا جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا۔ اس فتح کے بعد مسلمانوں برصغیرکے علاقوں پر وقتاََ فوقتاََ صدیوں تک حکمرانی کرتے رہے اور اسلام کی اشاعت و ترویج کی خاطر کوشاں رہے جس میں علماء اکرام اور صوفیاء اکرام نے اسلام کا پرچم سر بلند رکھا۔ مگر 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمان مجبوراََ انگریزوں اور ہندوؤں کے زیرِ تسلط ہو گئے۔

انگریز سازش کے تحت برصغیر میں تجارت کرنے آیا، ایسٹ انڈیا کے نام سے ایک کمپنی بنائی مگر جنگِ آزادی کے بعد سازش کے تحت اور مسلمانوں اور ہندوؤں کی نااتفاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران بن بیٹھا۔ اسی دوران مختلف تنازعات ہوئے، اردو ہندی تنازعہ سے لے کر دیگر تنازعات کی بنا پر ہندوؤں نے مسلمانوں پر آگے بڑھنے کے دروازے بندکردیے۔ یہی وہ دور تھا جب سر سید احمد خان میدانِ عمل میں اترے اور مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔

1885 میں انڈین نیشنل کانگرس بنی مگر رفتہ رفتہ کانگرس صرف ہندوؤں کی نمائندہ جماعت بن کے رہ گئی تھی۔ کانگرس اور ہندو رہنماؤں کو مسلمانوں کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں تھا اس رویے کو دیکھتے ہوئے مسلمان رہنماؤں نے مل کر ایسی جماعت بنانے کی کوشش میں لگ گئے جو مسلمانوں اور اقلیتوں کے مسائل کو حل کرے اوراُن کے حقوق کا تحفظ کر سکے۔ اس جماعت سے ایسی تحریک چلائی جائے جو الگ وطن کے قیام کی طرف گامزن ہوتاکہ انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط سے نکلا جاسکے۔

اس مشکل اور سازشوں کے دور میں ایک نوجوان وکیل نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا اور کوشش کی کہ مسلم ہندو اتحاد نہ ٹوٹے اور دونوں اقوام اتحاد برقرار رکھتے ہوئے انگریز راج کے خلاف جدوجہد کریں۔ اس اتحادکو برقرار رکھنے کی خاطر اس نوجوان وکیل نے ہندو رہنماوں سے مذاکرات کئے اور آپس میں مل کر انگریز راج کو شکست دینے اور برصغیر سے نکالنے کے لئے عملی اقدامات پیش کئے۔ مگر ہندو رہنماؤں نے اِس نوجوان وکیل کی باتوں پہ دھیان نہیں دیا۔ اپنی طرف سے مخلصانہ کوششوں کے بعد جب کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا تو آپ نے واضح کر دیا کہ ہندو کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتے۔ اس نوجوان وکیل کا نام محمد علی جناح تھا جسے تاریخِ پاکستان میں قائداعظم کا خطاب دیا اور تاریخ میں ان کو قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

محمد علی جناح نے ان تمام حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے آخر کار 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور ایک الگ مسلم ریاست کے حصول کے لئے جاندار کوششوں کا آغاز کیا۔ نہرو رپورٹ کے جواب میں قائداعظمؒ نے اپنے 14 نکات پیش کئے جن سے مسلمانانِ برصغیر کی راہوں کا تعین ہوگیا اور تحریکِ پاکستان نے اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع کر دیا۔ 1937 کے انتخابات ہوئے، ان انتخابات میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جس کے نتیجے میں انتخابات کے نتائج مسلمانوں کے خلاف آئے۔ اس ہندو سازش اور نتائج کے بعد مسلمانوں نے اپنی راہیں ہندوؤں سے جدا کر لیں اور ایک ایسا پیلٹ فارم مہیا کر دیا جس کے تحت وہ متحد ہو کر اپنا الگ مقام بنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ 23 مارچ 1940 کو مسلمانوں نے الگ مسلم ریاست کا نعرہ لگایا اور اسکے قیام کی کوششیں کرنے لگے۔

جب 1937 کے انتخابات کے بعد مسلمانوں کو ڈیڑھ سالہ کانگریسی دورِ حکومت میں جب ہندوؤں کی بالادستی کا تجربہ ہوا تو وہ سنجیدگی سے اپنے مستقبل کے بارے سوچنے لگے۔ تمام مسلمان رہنماوں نے الگ ریاست کے مطالبہ کی طرف جدوجہد شروع کر دیں۔ قائدِ اعظمؒ نے 1939 میں انگریز وائسرائے کو بتا دیا کہ مسلمانانِ ہند کے پاس الگ وطن کے مطالبے اور حصول کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا۔ یہ وہی 1930 میں دیکھا گیا خواب تھا جسے علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں میں راسخ کر دیا تھااور بعد میں قائداعظمؒ اس خواب کو حقیقت بنانے کی طرف کوشاں ہو گئے اور یہی خواب دونوں رہنماوں کے لیے حرزِ جان بن گیا۔

چوہدری رحمت علی نے 1933 میں Now or Never لکھ کر آزاد مسلمان مملکت کا نام "پاکستان" تجویز کر دیا۔ 23 مارچ 1940 کی نصف شب قراردادِ لاہور پیش کی گئی جس میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ تھا اور منزل کا تعین بھی واضح کر دیاگیا۔ ایسے حالات میں مسلمان اور ہندو اتحاد قائم رہنا اور دونوں قوموں کا اکھٹے رہنا مشکل ہے۔ اگلے دن ہندو پریس نے اس قرارداد کا مذاق اڑاتے ہوئے قراردادِ لاہور کو"قراردادِ پاکستان" کا نام دے دیا۔ جب ایک صحافی نے قائدِ اعظمؒ سے اس بارے پوچھا تو اُنھوں جواباََ کہا "Thank you Hindu Press" اور فرمایا کہ ہندو پریس نے میری مشکل آسان کر دی ہے ورنہ اس تصور کو سمجھانے اور پھیلانے میں مجھے بہت وقت لگتا۔

قراردادِ پاکستان میں ایک نئی ریاست کا قیام خالصتاََ اسلامی نظریات پر رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کا حصول مسلمانوں کے اتحاد، جذبہ حب الوطنی اوراسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے تھا جو ایک معجزہ سے کم نہی۔ یہ ایک ایسا جذبہ تھا جس نے بیک وقت انگریزوں اور ہندوؤں کو شکست دی تھی جو بظاہر ناممکن نظر آتی تھی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب عوام میں اتحاد اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہو تو وہ دریاؤں کا رخ موڑکر اور پہاڑوں کو چیر کار منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔

اس قرارداد میں ملک کی وفاقی، جہوری اور نظریاتی حکومت کا قیام کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق، مساوات و براری اور صوبائی خودمختاری کو واضح الفاظ میں تعین کر دیا اور پاکستان کے دستور کے اہم حصہ بنایا۔ اگر ہم ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، نظام بدلنا چاہتے ہیں، عدل و مساوات قائم کرنا چاہتے ہیں تو استحصالی سیاستدانوں اور لالچی حکمرانوں کی جانب دیکھنا چھوڑنا ہوگا اور کھٹے ہوکر منزلِ مقصور پر پہنچنا ہوگا۔

ہمیں تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے، 23 مارچ 1940 اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔ ہمارے حکمرانوں، دانشوروں اور سیاستدانوں پر لازم ہے کہ اس قرارداد کا مطالعہ کریں اور ملکی و دستوری مسائل کواس کے مطابق حل کریں۔ ہمیں قرارداد پاکستان کے محرکات کو سامنے رکھ کر تجدیدِ عہد کرنا ہوگا اور ہمیں امیر، غریب، اعلیٰ و ادنیٰ، کمزور و طاقتور میں امتیازی سلوک سے بالاتر ہو کر مساوات اور انصاف کے نظام کو یقینی بنانا ہوگا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari