Friday, 25 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Khulasa e Quran, Chati Nimaz e Taraweeh

Khulasa e Quran, Chati Nimaz e Taraweeh

خلاصہِ قرآن، چھٹی نمازِ تراویح

آج کی تراویح کا آغاز ساتویں پارے اور سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر83 سے ہوتا ہے جس میں ایمان والوں کے رقتِ قلب کا بیان ہے کہ جب وہ قرآن کریم کی تلاوت سنتیں ہیں تو اسکے مضامین پر رو پڑتے ہیں۔ یہ آیت اسوقت نازل ہوئی جب حضرت جعفرؓ نے نجاشی بادشاہ کے دربار میں سورۃ مریم اور سورۃ طہٰ کی آیات سنائیں تو بادشاہ، درباری اور علماء سب زاروقطار رونے لگے۔ اسی طرح جب نجاشی بادشاہ کے 70 آدمی حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ کی زبانِ اقدس سے سورۃ یٰسین کی تلاوت سن کر وہ بھی رو پڑے۔ اس کے بعد ایمان والوں کو مخاطب کیا کہ کسی بھی چیز کو حلال و حرام کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ک پاس ہے تم ستھری چیزوں کو حرام نہ ٹھہراو۔

قسم کے احکامات بیان کرتے ہوئے ایمان والوں کو بتایا کہ جب قسم کھاؤ تو اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ قسم کی تین قسمیں بیان ہوئیں 1) یمینِ لَغو(غلط فہمی) کی قسم کا کوئی کفارہ نہیں 2)یمینِ غَموس(جھوٹی قسم) کھاناکہ اسے حرام قرار دیا گیا3) یمینِ منعقدہ (آئندہ آنے والے معاملے پراسے پوار کرنے یا نہ کرنے پر قسم) ایسی قسم توڑنا منع اور اس پر کفارہ لازم ہے۔ تیسری صورت والی قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھنا۔ شراب، جوئے بت اور پانسے کی حرمت بیان کی گئی اور انہیں شیطانی عمل کہہ کر قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا۔

آیت نمبر 95 اور 96 میں احرام کی حالت میں دریا کا شکار حلال اور خشکی کا شکار منع کر دیا گیا۔ کعبہ اور اسکے اردگرد کے علاقے کو حرم قرار دیا گیا اور جو اسمیں داخل ہوگیا اس نے امن پا لیا۔ نبی کریم سے غیر ضروری سوالات کرنے سے منع کر دیا کہ ایسی باتیں ظاہر ہو جائیں گئیں تو تمہیں ناگوار لگیں گیئں۔ مشرکین نے اپنی عقل سے بعض جانوروں کے نام رکھ کر ان کو حرام قرار دیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی کو بھی حرام نہیں کہامثلاََ کان چِرا ہوا (بحیرہ)، بجار(سائبہ)، وصیلہ اور حامی۔ میت کی وصیت بارے امانت و دیانتداری سے کام لینے اور میت کے اہل و اقارب بارے جانچ پڑتال کرنے اور خیانت سے بچتے رہنے کا حکم دیا۔

آیت نمبر 110 سے 120 تک حضرت عیسیٰؑ اور انکے حواریوں کے بارے تفصیلی ذکر آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمتوں کو یادکروایا۔ حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں نے آپ سے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ آسمان سے ہمارے لیے خوان آئے، اس سے ہم کھائیں پئیں اور قلبی اطمینان پائیں۔ حضرت عیسیٰؑ نے غسل کیا، موٹا لباس پہنا، دو رکعت نماز ادا کی اور دعا فرمائی "اے اللہ، اے رب ہمارے! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے"۔ قیامت کے دن کے تذکرے پر سورۃ المائدۃ کا اختتام ہوتا ہے جس میں قیامت کی منظر کشی کی گئی جس دن سچوں کا سچ کام آئے گا اور وہ باغوں میں ہوں گے جبکہ جھوٹوں کو عذاب دیاجائے گا۔

سورۃ انعام مکیہ ہے جو ترتیبِ توفیقی کے اعتبار سے چھ (6) جبکہ ترتیبِ نزولی کے اعتبار سے پچپن (55) نمبر پر اور 20 رکوعات اور 165 آیات ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ سورت ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ ایک روایت کے مطابق 6 آیات مدینہ منورہ میں اور باقی کی سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ عربی میں "انعام" چوپایوں کو کہتے ہیں، مشرکین اپنے مویشیوں میں بتوں کا حصہ رکھتے تھے اور خود ساختہ چند جانوروں کو حلال و حرام بتاتے تھے۔

سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور قدرت الہیہ کا ذکر ہے جس میں آسمان و زمین، اندھیرے و روشنی اور انسان کو مٹی سے پیدا فرمانے بارے بیان ہے جن کا کافر انکار کرتے اور رسول اللہ کا استہزا کرتے ہیں۔ آگے بتایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تجھے کوئی برائی پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر اور وہی ہے حکمت والا خبردار۔ کفار و مشرکین وحی الہی کا انکار کرتے ہیں اور اگر وہ سای نشانیاں دیکھ بھی لیں توپھر بھی ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ مگر جب ان کو آخرت میں آگ کا عذاب دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کاش کسی طرح ہم دنیا میں واپس بھیجے جائیں تو اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہو جائیں بیشک یہ جھوٹے ہیں۔ بتاؤ اگر اللہ تمہارے کان اور آنکھ لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سواکون خدا ہے کہ تمہیں یہ چیزیں لادے۔

کفار رسول اللہ سے طرح طرح کے سوال اور فرمائشیں کرتے تھے مثلاََ ہمیں مال و دولت دیجئے، پہاڑوں کو سونا بنا دیجئے، گزشتہ اور آئندہ کی خبریں دیجئے تاکہ ہم نفع حاصل کریں اور نقصان سے بچ جائیں، ہمیں قیامت کا وقت بتائیے، کبھی کہتے آپ کیسے رسول ہیں جو کھاتے پیتے بھی ہیں اور نکاح بھی کرتے ہیں ان تمام باتوں کے جواب میں آیت نمبر 50 نازل ہوئی۔ آیت نمبر 59 میں رسول اللہ نے فرمایا دیا ان لوگوں سے کہ "اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی، انھیں وہی جانتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اور جو پتا گرتا ہے وہ اسے جانتا ہے اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھانہ ہو۔ آقا کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کفار ہر دور میں ایسا ہی کرتا آئے ہیں اور ان کے تباہ شدہ آثار انکے عبرت ناک انجام کا پتادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تمہارے اوپر سے، پاؤں کے نیچے سے عذاب دے۔

آیات نمبر 74 سے 83 میں حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ بیان ہوا کہ کیسے آپ نے ستارہ پرستوں، چاند پرستوں، سورج پرستوں اور بت پرستوں کے خلاف دلیلیں قائم کرکے حمایتِ توحید کی اور کفریہ عقائد کا رد کیا۔ حضرت ابراہیمؑ عراق کے علاقے نینوا میں پیدا ہوئے اور بچپن سے ہی توحید پرست تھے بت پرستوں سے بیزار تھے۔ قوم کو بت پرستی ترک کرنے کا کہتے تو ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگتی اور کہتے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسے ہی کرتے پایا ہے اور اگر تم نے ہمارے خداؤں (بتوں) کا انکار کیا تو یہ تمہیں تباہ و برباد کر دیں گے۔ ابراہیمؑ نے جواب دیا کہ مجھے ان کا ڈر نہیں جنھیں تم شریک بتاتے ہو بلکہ ڈرنا تمہیں چاہیے کہ تم اللہ وحدہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ دعوتِ ابراہیمی کے بارے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ دوسرے انبیاء بھی اپنے اپنے دور میں دعوت کا کام کرتے آئے ہیں۔

آیت نمبر 83 سے 86 میں بڑے اختصار اور عمدہ پیرائے میں 18 انبیاء کرامؑ کا ذکر فرمایا ہے جنکو اللہ تعالیٰ نے وحی سے مشرف فرماکر کتاب، حکم اور نبوت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی مزید قدرت کا بیان ہے کہ وہی اکیلا رب ہے جس نے خشکی و تری میں راستہ متعین کرنے کے لیے ستارے بنائے، مردہ کو زندہ اور زندہ کو مردہ کرنے والا، سورج اور چاند کا حساب مقرر فرمایا، آسمان سے پانی برسا کر کھتیاں اور باغات آباد فرمائے جن میں طرح طرح کی سبزیاں، پھل لگتے ہیں جو دیکھنے میں خوشنما اور بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ ان سب چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور واحدنیت کی واضح نشانیاں ہیں علم والوں کے لئے۔

پارے کے آخر میں توحید کا بیان اور شرک کی نفی فرمائی گئی۔ مشرکین نے جِنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اور اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گڑھ لیں۔ اللہ تعالی ہی نے بے کسی نمونے کے آسمان اور زمین کو بنانے والاہے، اسکی نہ کوئی عورت ہے اور نہ ہی بچے پس اس کے سوا کسی کی بندگی قبول نہیں ہر چیز پر نگہبان۔ اللہ تعالیٰ کے لیے حد وجہت محال ہے، اسکا ادراک واحاطہ ناممکن ہے اس لیے آیت نمبر 103میں ہے کہ "آنکھیں اُسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اُس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے نہایت باطن اور پورا خبردار"۔

اللہ رب العزت نے حق و باطل واضح کرکے انسان کو اختیار دیا ہے کہ چاہے حق کو اختیار کرے یا اس سے نظریں چرائے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار کے بتوں کی برائی کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ کفار شان الہی میں بے ادبی کرنا شروع ہو گئے تھے۔ کفار و مشرکین کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انکے دلوں اور آنکھوں کو حق دیکھنے اور ماننے سے پھیر دیتا ہے اسی وجہ سے وہ رسول اللہ کے دست حق پرست پر ظاہر ہونے والی نشانیوں اور معجزات کو نہیں مانتے اور سرکشی میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں۔ مومن کی یہی شان ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہے اور ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل رہے اور حق راہ کو نہ چھوڑے۔

Check Also

Nizami Street Baku (2)

By Ashfaq Inayat Kahlon