Gariyon Ki Tez Roshni, Insani Zindagion Se Khilwar
گاڑیوں کی تیز روشنی، انسانی زندگیوں سے کھلواڑ

انسان جیسے جیسے ترقی کرتا جا رہا ہے تو ویسے ویسے اُس کے طور طریقے اور سماجی رویے بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ وہ چیزیں اور خیالات جو ہمیں پہلے وقتوں میں اچھے اور مناسب محسوس ہوتے تھے اب وہ سب ہمیں دقیانوس لگتے ہیں۔ ہمارے سماجی رویے بھی بہت حد تک بدل چکے ہیں اور انہیں چیزوں میں ایک گاڑیوں کی مدھم پیلی روشنی تھی۔ اقتدار بدلنے سے پیلی روشنی اب تیز سفید روشنی (High Beam Head Light) میں بدل چکی ہے۔ سڑکوں پر رات کے وقت سفر کرنے والوں کے لیے یہ تیز سفید روشنی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ تحقیق اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رات کے وقت اسی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
گاڑیوں کی یہ تیز روشنیاں بظاہر زیادہ دور تلک دیکھنے کی سہولت دیتی ہے، مگر حقیقت میں یہ دوسرے ڈرائیوروں کے لیے خطرہ پیدا کرتی جا رہی ہے۔ یہ تیز روشنی سامنے سے آنے والے ڈرائیور کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ گاڑیوں کے لئے گاڑی چلانا اور کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ رات کے وقت یہی کچھ لمحوں کا اندھا پن حادثات کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ایک انسان اپنی سہولت کے لئے کئی دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ افسوس کہ ہم سب اس میں شامل ہیں جو کہ ہمارے سماجی و معاشرتی رویوں کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان میں پچھلی دو دہائیوں سے ذرائع آمدورفت میں بہت جدت آ گئی ہے جس کی وجہ سے دنوں کا سفر اب گھنٹوں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد میں اس بجا اضافے کی وجہ سے بہت سارے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ چھوٹی بڑی، ذاتی اور عوامی گاڑیاں انسان کو آرام دہ سفر باہم پہنچا رہی ہیں۔ آج ہر دوسرے انسان کے پاس اپنی ذاتی گاڑی، موٹر سائیکل اور ای بائیکس موجود ہے۔ اسی وجہ سے عام سڑکیں کم پڑتی جا رہی ہیں اور بے ہنگم رش بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے حادثات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ایشین ٹرانسپورٹ آبزرویٹری کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 30 ہزار اموات واقع ہو رہی ہیں۔ ہزاروں افراد اپاہج جبکہ لاکھوں لوگ زخمی ہو رہے ہیں۔ نیشنل روڈ سیفٹی کے مطابق اگر بےہنگم ٹریفک پہ قابو نہ پایا گیا تو یہ حادثات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ بین الااقوامی تحقیقی ادارے (Warse Journal) کے مطابق تیز روشنی (High Beam) تین سیکنڈ تک ڈرائیور کو اندھا کر سکتی ہے۔ اگر گاڑی 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے تو گاڑی اس دوران 83 میٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے جس سے حادثے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان میں دن کے مقابلے میں رات کو تیز روشنی پر بہت انحصار کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تیز روشنی کو کنڑول کرنے کے لئے خودکار نظام موجود ہے جو سامنے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر روشنی مدھم کر دیتی ہے مگر پاکستان میں زیادہ تر گاڑیاں پرانی ہیں جن میں یہ نظام موجود نہیں۔ ہم ان تمام چیزوں پر غور کریں تو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ ہم خود ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں رات کے وقت جو حادثات ہو رہے ہیں اُن میں سب سے زیادہ اہم کردار تیز روشنیوں کا ہے۔ یہ معاملہ ہماری قوم کی سوچ اور ہمارے سماجی رویوں کا عکاس ہے۔ اب یہ اجتماعی مسئلہ بن گیا ہے جسے ہم سب نے مل کر حل کرنا ہے۔ ہمارے اس عمل کی وجہ سے کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سختی سے نمٹنا پڑے گا۔ ایسی گاڑیوں کے ڈرائیور پر بھاری جرمانا عائد کرنا پڑے گا جو ایسی روشنیاں لگواتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتِ وقت اُن فیکڑی مالکان کے لئے بھی قوانین بنائے جو ایسی روشنیاں بنا رہے ہیں۔
اس طرح کے سماجی رویے ہماری معاشرتی نظم و ضبط کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے ڈارئیور کی حفاظت کا خیال رکھتے ہیں۔ یورپ کے لوگ ٹریفک قوانین پر مکمل عمل کرتے ہیں۔ وہ لوگ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اُن کے کسی عمل سے دوسرے ڈرائیور کو تکلیف نہ ہو۔ مگر ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہو رہا ہے، یہاں دوسرے کو پریشان کرکے خوشی محسوس کی جاتی ہے۔ اگر کسی غلط کام کرنے والی کی اصلاح کی جائے تو اگلا اسے مثبت بات سمجھنے کی بجائے لڑائی اور گالی پر اتر آتا ہے۔ یہ تیز روشنیاں نہ صرف ڈرائیور بلکہ پیدل چلنے والوں کے لئے بھی خطرہ ہیں۔
ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے بحثیت ڈرائیور ہمیں نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے ڈرائیور حضرات کی حفاظت کا خیال بھی رکھنا ہے۔ اگر ہم نے آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو گاڑی چلانا نہ صرف غیر محفوظ بلکہ کئی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتا جائے گا۔ ہمیں ایک ذمہ دار شہری اور ڈائیور بننے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ حکومت یا پولیس کا نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔

