Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Aaqa Ki Aamad Marhaba (9)

Aaqa Ki Aamad Marhaba (9)

آقا کی آمد مرحبا (9)

ماہِ ربیع الاول ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو زمان و مکان کے لیے مبعوث فرما کر ظلمت میں ڈوبی انسانیت پر اپنا احسانِ عظیم فرمایا۔ جب بھی یہ بابرکت مہینہ آتا ہے تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور دل مسرت و شادمانی سے جگمگا اُٹھتے ہیں۔ ہر طرف نعتوں اور درودوسلام سے فضا معطر ہو جاتی ہے اور ہر سو برقی قمقموں سے نور کا سماع ہوتا ہے اور نور کی برسات چھما چھمابرستی ہے۔

شہر شہر قریہ قریہ محافلِ ذکرِ رسول ﷺکا انعقاد کیا جاتاہے، عشق و مستی میں ڈوبے نعروں کی صدائیں سنائی دیتی ہیں اور ماحول "سرکار کی آمد مرحبا، آقا کی آمد مرحبا" کے نعروں سے گونج اُٹھتاہے۔ ہم مسلمانوں کے لیے محبت رسولﷺ جزوِ ایمان ہے اور اِس کے بنا ہمارا دین و ایمان مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ صدیوں آج تک امت کے بڑے بڑے علماء، مفسرین، محدیثین و شارحین نے آقاﷺ کی آمدکو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت قراردیا، آمد والے مہینے ربیع النور(ربیع الاول) میں اس نعمتِ عظمیٰ پر خوشی کا اظہار کیااور میلادِ پاک کی محافل منعقد کیں جن کو باعثِ اجروثواب قرار دیا۔

اس ماہ مبارک میں محافلِ نعت، مجالسِ سیرت رسولﷺ، جلوسِ میلاد اور درود و سلام کا خصوصی انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مسلمان انتہائی عقیدت و احترام سے شامل ہوتے ہیں۔ دورِ رسالت مآب ﷺمیں بھی صحابہ اکرام (رضوان اللہ علیہ اجمعین) اپنی مجالس میں ذکرِ رسولﷺ کیا کرتے اور آپﷺ سے آپ کی ولادت اور آمد کے بارے میں گفتگو کرتے۔ حضورﷺ اور صحابہ اکرام کے درمیان مختلف موضوعات پر بات ہوتی جس میں آپ صحابہ اکرام کی تربیت فرماتے جس میں اکثر حیاتِ طبیہ، حسب و نسب اور نبوت و رسالت کا بھی ذکر ہوتا۔

حضرت واثلہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا، "بے شک رب کائنات نے ابراہیمؑ کی اولاد میں سے اسماعیلؑ کو منتخب فرمایا اور اسماعیلؑ کی اولاد میں سے بنی کنانہ کو اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کواور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا"۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے جس میں حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ "ایک روز آقا ﷺ میدانِ اُحدکی طرف تشریف لے گئے، ان پر نمازِ جنازہ کی طرح نماز پڑھی اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رو ہوں اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم میں اس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہا ت کرنے لگو گے (بخاری)"۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آقا ﷺکے صحابہ نے اہتمامِ ذکرِ رسولﷺ کرکے یہ بتا دیا کہ تذکرہِ میلاد کرنا خود آقاﷺ کی سنت ہے اور ہمیں بھی ایسی مجالس کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ لوگوں میں عشقِ رسولﷺ زیادہ ہو اور تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہوں۔ اسی طرح مدحتِ رسولﷺ میں نعت پڑھنا، سننا اور محافلِ نعت کا انعقاد کرنا بھی کارِ ثواب اور قرآن و سنت کے عین مطابق ہے کیونکہ اللہ تعالی خود کتابِ عظیم میں اپنے محبو ب کی نعت بیان کی اور مداحِ دربارنبی حضرت حسان بن ثابتؓ خود روبروِ آقاﷺ نعت خوانی کرتے۔

و اَحسن منکَ لَم تَرَقطُ عینی

یارسولﷺ آپ جیسا حسین میری آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں

و اَجملُ مِنکَ لَم تَلِدِ النساءُ

اور (دیکھتی بھی کیسے کہ) آپﷺ جیسا حسین و جمیل کیس ماں نے پیدا کیا ہی نہیں

خُلقتَ مُبرُءََ مِن کُلِ عیبِِ

آپ ﷺ کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا

کاَ نکَ قُد خُلقتَ کَما تَشاءُ

گویا کہ آپ ﷺ کو ایسا ہی پیدا کیا گیا جیسا آپ خود چاہتے تھے

صحابہ اکرام ہر وقت اور ہر لمحہ آقاﷺ کے دیدار سے مشرف ہوتے اور نبوت کے جلوے دیکھتے، آپ کے فضائل و مناقب بیان کرتے، درودوسلام کے نظرانے پیش کرتے اور اس طرح آقا کا میلاد مناتے اور خوشی کا اظہار کرتے۔ تمام جید اکابر علماء و مفسرین نے یومِ میلاد کو خوشی کا دن قرار دیا۔ امام نویؒ کے شیخ امام ابو شامہؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے دور کا نیا مگر بہترین عمل حضورﷺ کے یومِ ولادت کا جشن منانے کا عمل ہے جس میں اس مبارک خوشی کی مناسبت سے صدقہ و خیرات، محفلوں کی زیبائش و آرائش اور اظہارِ مسرت کیاجاتا ہے۔

امام سخاویؒ فرماتے ہیں کہ میلاد شریف کا رواج تین صدی بعد ہوا ہے۔ اسکے بعد تمام ممالک و امصار میں مسلمانانِ عالم عید میلادالنبی ﷺ کی مجالس منعقد کرتے ہیں جن کی برکتوں سے ان پر حق تعالیٰ کا عام فضل و کرم ہوتاہے۔ علامہ ابنِ جوزیؒ فرماتے ہیں کہ میلاد کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے اس سے سال بھر امن و عافیت رہتی ہے اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ سلاطینِ اسلام میں عید میلاد النبیﷺ منانے کا نرالہ انداز سب سے پہلے ساتویں صدی کے ایک متقی، پرہیزگار، دلیر، عالم اور عادل عاشقِ رسولﷺ بادشاہ اربل سلطان مظفرابوسعید (وفات: 630ھ) نے محفل کی صورت میں میلاد منایا۔

اس وقت حافظ الشیخ ابو الخطاب عمر بن دحیہؒ نے اس موضوع پر ایک شاندار کتاب بنام "التنویر فی مولدالبشیر والنذیر" کے نام سے تالیف فرمائی جس پر شاہ نے ایک ہزار دینار بطورِ انعام دیا۔ شاہ ہر سال بڑے اہتمام سے جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کرتا تھا اور صدقہ و خیرات عام ہوتااور سجاوٹ کی جاتی۔ آمدِ مصفطیﷺ پر شاعر ظفر اقبال کا خوبصورت شعر جو میں وہ آقاﷺ کی آمد کو بیان کر رہے ہیں۔

جھک گیا کعبہ، سبھی بت منہ کے بل اَوندھے گِرے
دَبدبہ آمد کا تھا، اَھلاََ و سَھلاََ مرحبا

جشنِ میلاد ایک مستحسن عمل ہے مگر اس کے انعقاد میں نعض قابلِ اعتراض پہلوؤں سے اجتناب کرنا بہت ہی ضروری ہے تاکہ میلادِ النبی کے فیوض و برکات سے محروم نہ ہوں۔ محافلِ ذکرِ رسول اور جلوسِ میلاد میں طہارت، نفاست، پاکیزگی اور اخلاصِ نیت کا خصوصی خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ تقدس اور حقوق العباد کا اہتمام بہت ہی ضروری ہے۔ اسی طرح سجاوٹ کے لیے استعمال ہونے والی جھنڈیوں اور برقی قمقموں کو مناسب انداز میں لگانا چاہیے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو اور اختتامِ میلاد پر سب کو سمیٹنا چاہیے اور صفائی کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ ان تمام معمولاتِ میلاد کے دوران نمازیں ضائع نہ ہوں اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں۔

جلوس میں ناچ گانے، میوزک، اختلاطِ مردوزن سے کلی طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔ تاجر بھائیوں کو بھی نامعقول منافع سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ ہر کوئی اس خوشی اور جشن کے موقع پر سجاوٹ کر سکے۔ جلوسِ میلاد میں کسی طرح کی بدنظمی نہ ہونے دیں اور اس دن ہر سو پیار و محبت اور اخوت و بھائی چارے کا پیغام عام کریں۔ تمام کام خالص تقویٰ، عقیدت و محبت اور برکاتِ میلاد سمیٹنے کے لیے کرنا چاہیے اور عیدِ میلاد کو بہت ہی عزت واحترام کے ساتھ مناناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرت اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہمارے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنادے، آمین۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan